|

وقتِ اشاعت :   September 29 – 2019

دنیا اس بات سے کیسے غافل ہوسکتی ہے کہ امریکہ اور عالمی برادری نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے سوویت یونین کے خلاف بلاک بنائی جس کے بعد خود انہی ممالک نے طالبان کی نہ صرف سرپرستی کی بلکہ مکمل سرمایہ کاری کی تاکہ سوویت یونین شکست سے دوچار ہوجائے اور اس کا اثرورسوخ دیگر ممالک تک نہ بڑھ سکے۔ لہٰذا افغانستان میں ایک تربیت یافتہ تنظیم کی تشکیل کی گئی جوانہی امن پسند عالمی ممالک کے زیرِ سایہ پھلتی پھولتی گئی اور جنہیں اس دور میں مجاہدین کا لقب دیا گیا۔

جب دنیا کے طاقتور ممالک کے مفادات عین انہی کے منشاء کے مطابق حاصل ہوگئیں،تب پالیسی اور کھلاڑیوں کی تبدیلی کا کام شروع ہوا۔یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جنہیں اتنی طاقت فراہم کی گئی ہوجھٹ سے اس کا خاتمہ یقینی ہولہذا نتائج اس کے برعکس ہی نکلے، اس طرح یہ اتحاد ٹوٹ گیا جب مفادات کا ٹکراؤ ہو تو یقینا ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں اور اسی طرح نئی صف بندیوں کے ذریعے اتحاد تشکیل دی جاتی ہیں۔

بہرحال نائن الیون کے بعد امریکہ کو دنیا کے سامنے طالبان کے خلاف لڑنے کا ایک موقع مل گیا اور یہاں سے عالمی امن کا نعرہ بلند کرتے ہوئے شدت پسندی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا گیا جس میں پاکستان کو فرنٹ لائن کے طور پر اپنے ساتھ اتحادی بنایا گیا پاکستان سوویت یونین سے لیکر نائن الیون تک امریکہ کیلئے انتہائی اہم اتحادی کے طور پر اس جنگ میں ساتھ دیتا رہا۔

نائن الیون کے بعد نئی مسلح مذہبی تنظیمیں بھی معرض وجود میں آگئیں جن کا برائے راست پاکستان سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ القاعدہ کی بنیاد کہاں اور کس طرح رکھی گئی اس سے بھی دنیا بخوبی واقف ہے مگر حقائق سے آنکھیں چراکر مسلم ممالک پر شدت پسند گروپوں کی سرپرستی کا گمراہ کن الزام لگایا گیا۔ جب تک دنیا تاریخی حقائق کو تسلیم نہیں کرے گی مسائل اپنی جگہ موجود رہینگے۔

بدقسمتی سے بھارت میں بھی جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے بلاکسی تحقیق کے سارے الزامات پاکستان پر لگادیئے جاتے ہیں، اسی طرح افغانستان کی بدامنی کے متعلق تاریخی حقائق کو پسِ پشت ڈال کر پاکستان کے خلاف زہر افشانی کی جاتی ہے کیا موجودہ افغان حکومت اس بات سے لاعلم ہے کہ طالبان کی پرورش کس نے کب کی تھی اور ان کے مفادات اس وقت کس کے ساتھ تھے۔ آج جس طرح وہ طاقتور تنظیم کے طور پر کارروائی کررہی ہے یہ سب مرہون منت عالمی طاقتوں کی ہے۔

دوسری جانب اسلام خاص کر مسلمانوں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے کہ یہ جنگجوذہن رکھتے ہیں اور جہاد کے نام پر دہشت گردی پھیلاتے ہیں جو سراسر زیادتی ہے،اسلام امن بھائی چارگی کا درس دیتا ہے۔

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف کشمیر مسئلہ کو اجاگر کیا بلکہ اسلام فوبیاکے متعلق مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی جو یقینا قابل تحسین ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے متعلق کہا کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر ایسا ہوا تو ہمارے پاس آخری سانس تک لڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں اس طرح ایٹمی جنگ کی زد میں پوری دنیا آئے گی۔ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹتے ہی وہاں سے رد عمل آئے گا اور قتل عام کا خدشہ ہے۔

مجھے شک ہے کہ کشمیر میں پھر ایک پلوامہ ہوگا جس کا الزام پاکستان پر لگانے کی کوشش کی جائے گا۔ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی جنگ شروع ہوتی ہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے، ایک چھوٹا ملک لڑتا ہے تو اس کے سامنے دو راستے ہیں، ہتھیار ڈالے یا آخری سانس تک لڑے۔

وزیراعظم نے کہا ہم آخری سانس تک لڑیں گے، جب آخری سانس تک لڑیں گے تو نتائج کہیں زیادہ بھیانک ہوسکتے ہیں۔ برطانیہ میں 80 لاکھ جانور بھی بند ہوتے تو شور مچ جاتا، کشمیر میں 80 لاکھ انسان بند ہیں، اگر 8 لاکھ یہودی بند ہوتے تو دنیا کے یہودیوں کا ردعمل کیا ہوتا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ افسوس ہے کاروبار کو انسانیت پر فوقیت دی جا رہی ہے اور اسلامی دہشت گردی کا الزام آتے ہی دنیا انسانی حقوق بھول جاتی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، حجاب کرنے والی مسلم خواتین کو کئی ممالک میں مسئلہ بنا دیا گیا۔

کچھ مغربی ممالک کے سربراہوں نے دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا، اس لیے اسلامو فوبیا بڑھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام وہی ہے جو حضوراکرمﷺ نے بتایا، انتہاپسند اسلام جیسی کوئی چیز نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسلاموفوبیا مسلم ممالک اور مسلمانوں میں تکلیف کا سبب ہے۔ مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے اس سے انتہاپسندی بڑھتی ہے۔

عمران خان نے کہا افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلم سربراہوں نے بھی اسلاموفوبیا ختم کرنے پر بات نہیں کی لیکن اب اقوام عالم کو اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ وزیراعظم کی تقریر سے یقینا دنیا اب اس پر سوچ بچار ضرور کرے گی کہ اسلام ایک ہی ہے جس میں ناحق خون بہانے کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ امن اور انسانیت کی خدمت اسلام کا اہم جز ہے۔

مقبوضہ کشمیر اپنی جگہ ایک بڑامسئلہ ہے جس سے دنیا آنکھیں نہیں چرا سکتی۔ پچاس سے زائد دن گزر گئے کشمیر میں بھارتی ظلم وبربریت جاری ہے مگر اس پر کوئی لب کشائی نہیں کررہا کہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کو فوری روکا جائے۔ اگر دنیا امن چاہتی ہے تو اسے مقبوضہ کشمیر سمیت مسلم ممالک میں موجود تمام مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

عالمی طاقتیں اپنے مفادات کا تحفظ تو ہر سطح پر چاہتی ہیں مگر یہ اس وقت ممکن ہے جب انہیں سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔جنگی پالیسی کے دوران دوہرا معیار رکھ کر پالیسیاں بدل کر دنیا میں حقیقی امن نہیں لایا جاسکتالہٰذا اسلام مخالف پروپیگنڈہ سے زیادہ ترجیح دہشت گردی کے خلاف ہونی چاہئے جو کسی بھی سطح پر ہو۔

اس کی حوصلہ شکنی کرکے امن اور ترقی کے نئے راستے تلاش کئے جائیں،اور مقبوضہ کشمیر، فلسطین،افغانستان جیسے اہم مسائل کو اپنی ترجیحات میں رکھتے ہوئے انہیں حل کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم ہوجاسکے اور دنیا ایک نئی جنگ سے بچ سکے۔