پاکستان میں گزشتہ حکومتوں کے دوران بہترین سفارت کاری نہ ہونے کی وجہ سے آج ہمیں دنیا میں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔مقبوضہ کشمیر سے لیکر افغانستان تک کے مسائل پر جو کامیابی ملنی چاہئے تھی وہ حاصل نہیں کی جاسکی،اس کا سارا ملبہ موجودہ حکومت پر ڈالنا بھی مناسب نہیں،المیہ یہ ہے کہ گزشتہ ن لیگ کے دور حکومت میں بھی خارجہ پالیسی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کے نتائج آج مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ پرنظر آرہے ہیں۔ بھارت نے دنیا بھر میں اپنے آپ کو سفارتی حوالے سے متحرک رکھا مگر ہمارے حکمرانوں نے پڑوسی ممالک تک کو بھی اپنے ساتھ ملانے کیلئے جو مواقع خود چل کر آئے ان سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا جس کی مثال ایران ہے۔
حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم اور 370 کے خلاف واضح طور پر بولنے والا ملک بھی ایران ہی ہے اور اس سے قبل ایران نے نہ صرف پاکستان کو بجلی فراہم کرنے بلکہ گیس پائپ لائن منصوبہ پر کام کرنے کی پیشکش کی تھی مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے اپنی کوتاہی اور سستی کی وجہ سے ہمسایہ ممالک سے تجارت کو فروغ نہیں دے سکے یہ سوچنا حکمرانوں کا کام ہے کہ کس طرح سے خارجہ پالیسی کو بہتر سے بہتر بناتے ہوئے ہمسایوں سمیت دیگر ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کئے جائیں۔جب تک وزارت خارجہ متحرک نہیں ہوگی تب تک ہمیں مسائل اور چیلنجز کا سامنا رہے گا۔
آج بھی ایران پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور موجودہ حکومت کو بھی چاہئے کہ اس جانب توجہ مبذول کرتے ہوئے ایران کے ساتھ دوستی کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے کیلئے بات چیت کرے۔پاکستان اور ایران کے درمیان طویل مدت سے برادرانہ اور اچھی ہمسائیگی کے تعلقات ہیں بلکہ ایران دنیا کا واحد ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو ایک نئی ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا تھااور اس کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کئے تھے۔ پاکستان اور ایران کئی دہائیوں تک فوجی معاملات میں ایک دوسرے کے اتحادی رہے۔
بھارت کے خلاف دو جنگوں میں ایران نے پاکستان کا ساتھ دیا بلکہ 1965کی جنگ سے قبل پاکستان نے رن آف کچھ کے تنازعہ میں ایران کو اپنا ثالث مقرر کیا تھا۔ جو اس بات کاثبوت ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان دوستی اور قربت ہے۔ اب تاریخ کے نئے دور میں فوجی معاہدات سے معاشی معاہدات اور تعلقات کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے۔ ایران کی خواہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس کا تجارتی حجم 5ارب ڈالر ہو جو کوئی مشکل بات نہیں۔ ایران تیل پیدا کرنے والا دنیا کا ایک بڑا ملک ہے اور اس کی برآمدات سے آمدنی سالانہ 40ارب ڈالر سے زائد ہے۔
یہ برآمدات تیل کی برآمدات سے الگ ہیں اس لئے پاکستان ایران سے زیادہ سستی اشیاء بھی خریدسکتا ہے۔ حال ہی میں پاک ایران سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی اور باقاعدہ معاہدات کے ذریعے تجارت کو فروغ ملے گا، ایران بھی تجارت میں توازن پیدا کرنے کیلئے صرف برآمدات نہ کرے بلکہ پاکستان کی اشیاء کو بھی اپنی مارکیٹ میں لائے تاکہ یہ بین الاقوامی تجارت دو طرفہ ہوسکے۔ ایران کی حکومت کو دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بڑھانے کے لیے پاکستان اور خصوصاً پاکستانی بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔
یہاں سرمایہ کاری کے اتنے مواقع ہیں کہ ہماری دو طرفہ تجارت 5ارب کے بجائے 10ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ زیادہ بہتر سہولیات سے پاکستان ایران سے زیادہ مقدار میں تیل اور گیس خریدے گا۔ ایران کو اپنی سرحدات کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے پاکستانی بلوچستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی چاہئے جس سے دونوں ممالک نہ صرف قریب آئینگے بلکہ خوشحالی کی جانب گامزن ہونگے۔ دنیا میں اپنا لوہامنوانے کیلئے مؤثر لابنگ انتہائی ضروری ہے نہ صرف ایران بلکہ دیگر ممالک کو بھی اپنے ساتھ اسی طرح ملانے کی کوشش کی جائے توپاکستان عالمی سطح پر ہر قسم کے چیلنجز کا بھرپور مقابلہ کرے گا بلکہ اس کی اپنی معیشت بھی مضبوط ہو گی پھرہمیں کسی سے قرض لینے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔