وزیراعظم عمران خان کے حالیہ امریکہ دورہ اور یواین کے جنرل اسمبلی میں ہونے والی خطاب کو ملکی سطح پر سراہا جارہا ہے ساتھ ہی مختلف فورمز پر پاکستان کے بیانیہ کو بہتر اورمثبت انداز میں پیش کرنے سمیت دہشت گردی کے حوالے سے مؤقف کی بھی تعریف کی جارہی ہے یقینا جس اعتماد کے ساتھ عالمی میڈیا کے سامنے وزیراعظم عمران خان نے خطے میں عدم استحکام پیداہونے کے تاریخی پس منظر کو بیان کیا جس کی نظیر گزشتہ دور حکومتوں میں نہیں ملتی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وزیراعظم عمران خان کی عالمی سطح پر ملکی معاملات اور عالمی تعلقات کے حوالے سے تقریر کو تاریخی قرار دیا جارہا ہے۔ گزشتہ روزامریکی کانگریس میں ڈیموکریٹ پارٹی کے اراکین ہایمز اور مالونے نے وزارت خارجہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی جس میں پاک امریکہ تعلقات اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
فریقین کے درمیان پاک امریکہ دو طرفہ تجارت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ پر اتفاق ہوا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور دونوں ممالک نے دہشت گردی سمیت خطے کو درپیش چیلنجز کا مل کر مقابلہ کیا ہے۔نئے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور سیاحت کے بہترین مواقع موجود ہیں۔
وزیر خارجہ کاکہناتھا کہ ہمارے حالیہ دورہ نیویارک میں وزیر اعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے مابین ملاقات کافی سود مند رہی۔کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 5 اگست کو بھارت کی جانب سے کیے گئے یکطرفہ، غیر قانونی اقدامات نے خطے کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ 58 روز سے مسلسل کرفیو نافذ ہے۔ بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے 80 لاکھ نہتے کشمیریوں کو بھارتی استبداد سے نجات دلانے کے لیے امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ افغانستان میں دیرپا قیام امن کے حوالے سے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان امن عمل سمیت خطے میں قیام امن کے لیے مشترکہ ذمہ داری کے تحت اپنا کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے کیونکہ خطے میں پائیدار امن کے لیے مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں۔بہرحال پاکستان کی جانب سے ہر بار تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا جاتاہے۔
کیونکہ خطہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار سست ہوکر رہ گئی ہے،اس وقت سب سے بڑا چیلنج غربت ہے اور جنگی حالات میں یہ مسئلہ انتہائی گھمبیر صورت اختیار کر جائے گا۔موجودہ دنیا تیز ی کے ساتھ ترقی کی جانب بڑھتاجارہا ہے جبکہ ہمارے یہاں جنگی بادل منڈلارہے ہیں۔
ان حالات کو بہتر بنانے کیلئے اولین ذمہ داری عالمی برادری کی ہے کہ کسی بھی طرح افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے فریقین کو میز پر لائے تاکہ افغانستان کا مسئلہ بات چیت سے حل ہوسکے۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بڑھتے بھارتی مظالم نے خطے کے حالات کو مزید کشیدہ بنادیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ صرف ثالثی کے دعوے پر اکتفا کرر ہے ہیں مگر بھارت پر زور نہیں دیا جارہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے فی الفور کرفیو ہٹانے کے ساتھ ساتھ مظلوم کشمیریوں پرڈھائے جانے والے مظالم کو روکے،جبکہ افغانستان کے مسئلے پر امریکہ نے پاکستان پر متعدد بار دباؤ ڈالنے کی کوشش کی مگر مقبوضہ کشمیر پر محض بیانات دینا دوہرا معیار ہے۔
اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو دنیا اس سے شدید متاثر ہوگی لہٰذا حالات کی سنجیدگی اور حساسیت کو بانپتے ہوئے جلد ازجلد خطے میں موجود تنازعات کے حل کیلئے امریکہ سمیت عالمی برادری متحرک ہوکر اپنا کردار ادا کرے تاکہ خطے سمیت دنیا جنگ سے متاثر نہ ہو۔