|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2019

ملک کی سیاسی جماعتیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اپنے بیانیہ کے مطابق دیکھنا چاہتی ہیں جس سے ان کی تشہیر زیادہ سے زیادہ ہو جس میں بے شک حقائق کو مسخ کرتے ہوئے ان کی تعریفوں کے پل باندھے جائیں سیاسی جماعتوں کو ایسا رویہ اپنانے کا سہرا بھی ہمارے میڈیا کے اندر موجود چندصحافیوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے چند سیاسی جماعتوں کیلئے نرم گوشہ رکھا یا تو پھر اپنے مفادات کی بھینٹ صحافت کو چڑھایا، مسلم لیگ ن کے دورکی ہی مثال لیجئے جب مسلم لیگ ن کی قیادت پر پانامہ لیکس اور آف شور کمپنیوں کے متعلق بحث میڈیا میں چھڑی تو بعض میڈیا نے اس وقت مسلم لیگ ن کی قیادت کا دفاع بھی کیا کہ یہ سوالات اٹھانے کا مناسب وقت نہیں حالانکہ جب کوئی بڑی خبر انکشاف کی صورت میں سامنے آتی ہے تو عوام میں ایک جستجو پیدا ہوتی ہے اور ان کے ذہنوں میں سوالات جنم لیتے ہیں۔

کیونکہ حکمران اور اپوزیشن جماعتیں عوامی ملکیت ہوتی ہیں جن کی عوام اس بنیاد پرحمایت کرتی ہیں کیونکہ عوام کی ان جماعتوں کے ساتھ جذبات اور احساسات جڑے ہوئے ہوتے ہیں جب اس طرح کرپشن کے انکشافات سامنے آتی ہیں توذرائع ابلاغ کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے ہر پہلوپر بات کرے، فریقین کے مؤقف بھی سامنے لائے اور یہ فیصلہ پھر عوام نے کرنا ہے کسی بھی میڈیا کو فیصلہ سنانے کا حق نہیں بلکہ انہیں صحافتی اخلاق واقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے صرف اس پر سوالات اٹھانے کا حق ہے عوام خود اپنی رائے قائم کرے گی۔

اگر اس میں پروپیگنڈہ کا عنصر شامل ہوگا تو یقینا ذرائع ابلاغ بھی عوام کو گمراہ کرنے کے جرم کا مرتکب ہوگا۔اب بھی ہمارے یہاں چند میڈیا ہاؤسز میں بیٹھے افراد یکطرفہ حکومت کے ترجمان بنے ہوئے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن کی ترجمانی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو قطعاََ غلط ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری معاشرے کی حقیقی عکاسی کرنا ہے کسی کو خوش کرنا نہیں۔بہرحال میڈیاکے اندر بھی آپسی جنگ چل رہی ہے جس کی وجہ سے آج شاید میڈیا شدید بحرانات کا سامنا کررہی ہے۔

بدقسمتی سے حال ہی میں بڑے میڈیا ہاؤسز سے بڑے پیمانے پر ورکرز کو نکالا گیا ہے انہیں روزگار سے محروم کرکے ان کے گھروں کے چولہوں کو ٹھنڈا کردیا گیاہے جس اذیت سے وہ گزررہے ہیں وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔میڈیا سے کئی برسوں سے وابستہ ورکرز آج بے روزگاری اور تنگدستی کی وجہ سے شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں، گھرکا راشن تو کجا صحت اور بچوں کی تعلیم کیلئے بھی پیسے ان کے پاس نہیں مگر یہ ہمارے میڈیا ہاؤسز میں خبر کی زینت نہیں بنتی اور نہ ہی اس پر ہمارے دبنگ اینکرصاحبان کھل کربات کرتے ہیں کیونکہ مالکان کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔

بہرحال یہ بھی میڈیا کے اندر ایک حقیقت ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں،عرصہ دراز سے اربوں روپے کمانے والے چند ماہ میں کس طرح کنگال ہو گئے حالانکہ انہی بڑے میڈیا ہاؤسز کے مالکان کے نجی پیمانے پر بڑے کاروبار ہیں جو ورکرز کو تنخواہ ادا کرسکتے ہیں مگر حالیہ بحران کو بہانہ بناکر غریب ورکرز کو نکالا جارہا ہے اور آج ایک بڑی کھیپ بیروزگاری کا شکار ہوکر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے اب نوجوان نسل جو تعلیمی اداروں میں ذرائع ابلاغ کے شعبہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ بھی مایوس ہوچکے ہیں کیونکہ جہاں اس شعبہ کا مستقبل اس قدر تاریک ہو تو بلاکیسے یہ توقع رکھیں کہ وہ مستقبل میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ ہوجائیں۔

بہرحال بات ہورہی تھی اپوزیشن جماعتوں کی ذرائع ابلاغ سے ناراضگی کی،لیکن یہ تو ہونا ہی ہے کیونکہ جب میڈیا فریق بن جاتا ہے تو اس پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔حال ہی میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سلیکٹڈ میڈیا کا لفظ استعمال کیا مگر اس کی وضاحت نہیں کی یہی میڈیا بلاول کے پریس کانفرنسز اور جلسے جلوس، ریلیوں کو بھرپور کوریج دیتا ہے جہاں تک اپوزیشن کے غلط اقدام یا پھر سندھ حکومت کی بیڈگورننس کا سوال آتا ہے تو میڈیا حق بجانب ہے کہ اس پر بات کرے اور کسی جماعت سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اگر بلاول بھٹوزرداری سلیکٹڈ میڈیا کی وجوہات کو بیان کرتے تو اس پر کھل کر بحث کی جاسکتی تھی۔

دوسری جانب گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے شہبازشریف کی آزادی مارچ میں عدم شرکت کے حوالے سے خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہی کہ جیل میں نوازشریف اور شہبازشریف کی ملاقات کے حوالے سے ذرائع کی خبر محض جھوٹ ہے۔ شہبازشریف کی آزادی مارچ میں عدم شرکت کی شرانگیزی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ میڈیا سے پھر گزارش ہے کہ پارٹی قیادت سے متعلق کوئی بھی اطلاع بغیرتصدیق نہ چلائی جائے۔

اس پر صرف اتنا ہی کہا جاسکتاہے کہ ڈان لیکس کا معاملہ کہاں سے کہاں نکلا اور میڈیا کے نمائندگان کو خبریں دینے والے یہی سیاسی جماعتوں کے اپنے ہی رہنماء ہوتے ہیں میڈیا کے سیاسی ذرائع انہی جماعتوں سے ہی وابستہ ہیں کوئی وحی نازل نہیں ہوتی جس پر میڈیا خبر چلائے۔ لہٰذا پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنے اس عمل پر غور کرنا ہوگا کہ وہ اپنے مفادات سے جڑی خبریں میڈیا کو نہ دیں اور نہ ہی ان کے نمائندے میڈیا کی خبروں میں سیاسی ذرائع بننے کی کوشش کریں تاکہ میڈیا کو اپنے لئے استعمال کرسکیں۔