|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2019

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر میں طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے اور یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کااعلان کیا ہے۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جو تمام صوبوں میں یکساں طورپر نافذ ہوگا۔امیروں اور غریبوں کے لئے الگ الگ اسکول نہیں ہوں گے۔تمام اسکول اور دینی درسگاہیں حکومتی کنٹرول میں ہوں گے اور کہیں بھی انگریزی میڈیم کے اسکول صرف اشرافیہ کے لئے مخصوص نہیں ہوں گے۔

تمام اسکولوں اور درسگاہوں میں یکساں نظام تعلیم اور یکساں معیار تعلیم ہونا چائیے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ قوم کے تمام بچوں کو یکساں اور معیاری تعلیم دی جائے۔انہی اسکولوں میں ضروری اور بنیادی اسلامی تعلیم دی جائے جس سے غیرمسلم مستثنیٰ ہوں۔سرد جنگ کے دوران اور سوویت یونین کے خاتمے کیلئے ملک بھر میں جس طرح سے مدارس قائم کیے گئے اوران پر بڑے پیمانے پر رقوم خرچ کی گئیں اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

ان مدارس کو عرب ممالک کے علاوہ مغربی ممالک سے بھی مالی امداد ملی، اس طرح مختصر مدت میں ہزاروں مدارس قائم ہوئے۔بلوچستان میں بھی امام مساجد نے اربوں روپے کے دینی مدرسے قائم کیے، اب وہ مُلا نہیں‘ دینی مدارس کے مالک اور ملک کے سیاسی رہنمابن گئے ہیں،ان کے پاس ہزاروں بچے پڑھتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ ان طالبعلموں کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے بھی استعمال کرتے آئے ہیں کیونکہ نظریہ ضرورت کے تحت ہم نے خود اپنے نظام کا حشر نشر کرکے رکھ دیا۔

آج جب مذہبی جماعتوں کے دھرنے یا جلوس کی بات کی جاتی ہے تو موجودہ حکمران اس بات کو دہراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ مدارس کے بچوں کو سیاست میں استعمال نہ کیاجائے، ماضی کی پالیسیاں ہمیشہ مستقبل کی سیاسی حالات پر اثر انداز ہوتی ہیں اورحال میں یہ نتائج واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔

بہرحال اسلام آبادمارچ اپنی جگہ مگر ریاست کو اپنے عوام کی فلاح وبہبود کیلئے مستقل بنیادوں پر پالیسیاں بنانی چاہئیں تاکہ اس کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچے۔اس بات پر سب ہی متفق ہیں کہ ہمیں سیاسی اسلام کی نہیں حقیقی اسلام کی ضرورت ہے اور اسی کے ردعمل میں ملک بھر میں انگریزی اسکولوں کی بھر مارشروع ہوئی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسکولوں کے مالک ارب پتی بن گئے اور دولت کما رہے ہیں۔

دوسری طرف سرکاری اسکولوں کی جانب نظر دوڑائی جائے تو پورے ملک میں خاص کردیہی علاقوں میں ایک یا دو کمرے کے سرکاری اسکول نظرآتے ہیں پھر غریب عوام کے بچے کس طرح سے معیاری تعلیم حاصل کرتے ہوئے نچلی سطح سے اوپر آکر بہترین پوزیشن لے سکتے ہیں۔ہمارے سامنے بلوچستان ایک واضح مثال ہے اس وقت بھی کوئٹہ میں لا تعداد بھوت اسکول ہیں لڑکیوں کے اسکولوں کا انسپیکشن ہوتا ہی نہیں، اساتذہ سالوں غائب رہتے ہیں۔


اسکول کا استاد بننے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ مفت تنخواہ کے ساتھ آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹی پر ہیں اور اس کے اثرات تعلیم پر انتہائی برے مرتب ہوئے ہیں بلوچستان سمیت ملک بھر میں موجودہ نظام تعلیم ناکام ہوکر رہ گیا ہے جو ماضی کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔دوردراز علاقوں میں طلباء اور اساتذہ دونوں اسکولوں کا رخ ہی نہیں کرتے، اس کا حل یہی ہے کہ رہائشی اسکول تعمیر کرنے پر زور دی جائے کیونکہ اس سے نہ صرف تعلیمی معیار بہتر ہوگا بلکہ بچوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی اسکول میں حاضر رہیں گے۔

دوسری جانب اساتذہ کی تربیت کاہنگامی پروگرام شروع کیاجائے تاکہ اساتذہ معیاری تعلیم فراہم کرنے کے قابل ہوسکیں۔ معیاری تعلیم کی فراہمی کیلئے جامع منصوبہ بندی کی جائے،اس کے لیے وفاقی حکومت سمیت بین الاقوامی اداروں سے امداد طلب کی جائے۔وزیراعظم عمران خان اس اہم معاملے کو ایک چیلنج کے طور پر لیتے ہوئے جلد اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے تمام صوبوں سے لیکر نچلی سطح تک کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار اوپر آجائے اور یہ کمیٹیاں اس پر تیزی سے کام کریں اور زمین پر اس کے نتائج بھی نظر آئیں۔