ماضی میں ایسی حکومتیں برسرِ اقتدار آئیں جنہیں تاجروں کی حکومت کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکیونکہ ان کا پہلا کام قومی اثاثوں کی نیلامی تھا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ریاست کے سب سے زیادہ منافع بخش ادارے نیلام کردئیے گئے اور ان اداروں کے حصص بھی فروخت کردئیے گئے جو سالانہ سو ارب روپے سے زیادہ منافع کما رہے تھے۔ سب سے پہلے بنکوں کو نیلام کردیا گیا، بعض بنک اپنے من پسند افراد کو کوڑیوں کے دام فروخت کردئیے گئے۔
اسی طرح پی ٹی سی ایل فروخت ہوا۔ اس کے 80 کروڑ ڈالر کی قیمت آج تک وصول ہوئی بھی یا نہیں،کچھ معلوم نہیں۔ 20سال قبل پی ٹی سی ایل 20ارب روپے سالانہ منافع کما رہا تھا۔ اس وقت پی ٹی سی ایل کی قیمت 20ارب ڈالر تھی مگر کرپٹ حکمرانوں نے سب اثاثے کوڑیوں کے دام فروخت کردئیے۔ ملک‘ ریاست اور عوام کو نقصان پہنچایا گیاپھر عوام کو دھوکہ میں رکھنے کیلئے بڑے بڑے دعوے کئے گئے کہ وہ ملک کو ترقی دے رہے ہیں جبکہ ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا ہوا۔ غربت‘بے روزگاری میں اضافہ ہوا، لوڈشیڈنگ نے ماضی کے بھی ریکارڈ توڑ دیئے۔
المیہ یہ ہے کہ ان کے لاڈلے تاجر اور صنعت کار دیدہ دلیری سے بجلی اور گیس چوری کرتے رہے۔ ٹیکس کی چوری عروج پر پہنچی جس کا نتیجہ آج بھگتا جارہا ہے۔ معاشی طورپر تاجروں کی حکومت نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا۔گزشتہ حکومت کے دوران پی آئی اے میں مصنوعی بحران پیدا کیا گیا تاکہ پی آئی اے کے تمام اثاثے من پسند اور اپنے لاڈلوں کو فروخت کئے جائیں اور نام نجکاری کا لیاجائے اور مغربی دنیاکو خوش کیاجائے، اس طرح پاکستان اسٹیل کی نجکاری کے لئے جھوٹ بولا گیا اور کہا گیا کہ حکومت سندھ نے اس کو خریدنے کا اشارہ دیا تھا۔
سندھ کے وزیر خزانہ نے وفاقی حکومت کے جھوٹ کا پول کھول دیا اور اعلان کیا کہ سندھ حکومت نے کبھی یہ خواہش ظاہر نہیں کی کہ وہ پاکستان اسٹیل کو خریدنا چاہتا ہے بلکہ حکومت سندھ نے جائز طورپر اپنا حق ادا کرتے ہوئے اسکی سخت مخالفت کی اور وفاقی حکومت کی نجکاری کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دھمکی دی کہ اگر پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری کی گئی تو سندھ کی حکومت پاکستان اسٹیل کو دی گئی زمین کی لیز فوراً منسوخ کردے گی جس سے زیادہ بڑا بحران پیداہو گا۔اگر دیکھا جائے تو سندھ کی مخالفت سیاسی نہیں بلکہ اس کی زیادہ معاشی وجوہات تھیں سندھ سے 18ہزار افراد کے بے روزگار ہونے کا خطرہ تھا۔
سرکاری شعبہ میں یہ ایک قومی دولت ہے اور فروخت ہونے کی صورت میں ساری دولت صرف چند افراد کی مرضی سے خرچ ہو گی اور اس میں سندھ کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ اس لئے سندھ نے قانونی اور آئینی حق استعمال کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل کی نجکاری کی مخالفت کی۔گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ سالہا سال سے سرکاری خزانے پر بوجھ بننے والے ادارے کی بحالی کو ماضی کی حکومتوں کی جانب سے فراموش کیا جانا قوم پر ظلم کے مترادف ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت پاکستان اسٹیل مل کی بحالی کے حوالے سے اجلاس منعقد ہوا جس میں مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد، وزیر نجکاری میاں محمد سومرو، چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز پاکستان اسٹیل ملزعامر ممتاز و دیگر شریک تھے، اجلاس میں پاکستان اسٹیل مل کی بحالی کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں اور اس سلسلے میں مختلف آپشنز زیرغور آئے۔وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ پاکستان اسٹیل مل کی بحالی کے حوالے سے چین اور روس کی کمپنیوں کی جانب سے دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ حکومت کی ہر ممکنہ کوشش ہے کہ پاکستان اسٹیل مل کو بحال کرکے اسے منافع بخش ادارہ بنایا جائے تاکہ جہاں سرکاری خزانے پر ہر ماہ پڑنے والے بوجھ کو ختم کیا جا سکے وہاں ادارے کو فعال بنا یا جائے تاکہ وہ ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔بہرحال موجودہ حکومت ماضی کے تاجر حکمرانوں کے تجربات اور ذاتی خواہشات کو ضرور مدِ نظر رکھ کر فیصلہ کرے کیونکہ قومی ادارے ہمارے اثاثے ہیں جنہیں بہتر بنانے کیلئے اصلاحات اور پالیسیاں بنائی جائیں، یہ ملکی معیشت میں بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہیں۔
اگر حکومت خود اسے چلانے کیلئے بہترین ماہرین کے ساتھ مشاورت کرکے نئی پالیسیاں بنائے وگرنہ کمپنیاں کوڑی کے دام ہمارے اربوں روپے کے منافع بخش اداروں کو خرید کر صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرینگی اور ہمارے غریب عوام کا استحصال کرنے کے ساتھ ساتھ بیروزگاری میں اضافہ بھی کریں گی۔ امید ہے کہ حکومت ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی جو قومی مفاد میں ہوں گے ماضی ہمارے سامنے ہے لہٰذا حال کو بہتر بنانے کیلئے حکومت توجہ دے کیونکہ ماضی میں قومی اداروں کے ساتھ بہت زیادتی کی گئی جس کی وجہ سے ملک کا دیوالیہ نکل گیا۔