افغان طالبان کے ساتھ پھر ایک بار مذاکرات ہونے جارہے ہیں کیا امریکی صدر نے اپنے کئے گئے ٹویٹ سے یوٹرن لیتے ہوئے ایک بار پھر افغانستان کے مسئلے پر غور کرنا شروع کردیا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوسکے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ بیٹھک لگائی جائے البتہ امریکی حکام کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا ہے مگر افغان طالبان وفد نے روس، چین کے بعد پاکستان کا دورہ کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ افغان طالبان اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کیلئے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرر ہے ہیں۔
شاید اسی لئے ان ملاقاتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے امریکی صدر نے یوٹرن لیکر افغان طالبان کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات جاری کرنے کیلئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں کیونکہ یہ ایک اتفاق تو نہیں ہوسکتا کہ افغان طالبان پاکستان کے دورہ پر ہوں اور اسی دوران امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اسلام آباد پہنچ جائیں یقینا یہ افغان امن عمل کا سلسلہ دوبارہ بحال کرنے کی کڑی ہوسکتی ہے مگر اب تک سرکاری سطح پر امریکہ نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
گزشتہ روز پاکستانی حکام سے افغان طالبان کے وفد کی ملاقات کا اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔پاکستانی حکام اور افغان طالبان وفد کی ملاقات دفتر خارجہ میں ہوئی، پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جبکہ 12 رکنی افغان طالبان کے وفد کی قیادت ملا عبد الغنی برادر نے کی۔ اعلامیے کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان مسئلے کے جلد پُر امن حل کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کرنے کا وقت ہے اور افغانستان میں مستقل امن کے لیے پاکستان تمام کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔
افغانستان میں مستقل امن پاکستان کی معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے اور پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ افغانستان کے پیچیدہ مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں۔اعلامیے کے مطابق افغانستان میں امن و مفاہمت کے لیے معاشرے کے تمام شعبوں کی شمولیت واحد راستہ ہے، افغان عوام، نمائندوں، اسٹیک ہولڈرز میں بات چیت مستقل امن کی راہ نکال سکتی ہے۔
پاکستان امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی حمایت کر تارہا ہے اور پاکستان مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچانے کا خواہاں ہے۔اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عالمی اور علاقائی تعاون امن کی راہ ہموار کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ افغان طالبان کے وفد اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے زلمے خلیل زاد کی اسلام آباد میں ملاقات ہوئی ہے جس کیلئے پاکستان نے بڑا کردار ادا کیا۔اطلاعات یہ ہیں کہ طالبان اور امریکی نمائندہ خصوصی کی ملاقات کا مقصد اعتماد سازی تھا تاہم امریکی سفارتخانے نے اِس ملاقات پر کسی قسم کے ردعمل سے گریز کیا ہے۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق زلمے خلیل زاد رواں ہفتے کچھ دن اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساتھ مشاورت کریں گے تاہم ان کی اسلام آباد میں ملاقاتیں افغان امن عمل کے دوبارہ شروع ہونے کو ظاہر نہیں کرتیں۔
دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی امریکی نمائندہ خصوصی سے ملاقات کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ وزیراعظم عمران خان سے بھی وفد کی ملاقات کی خبر سامنے آئی تھی تاہم وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ملاقات کی تردید کی۔افغان طالبان کے وفد نے پاکستان کے دورے سے قبل چین اور روس کا بھی دورہ کیا تھا جہاں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں تھیں۔
واضح رہے کہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے کے حوالے سے تقریباً معاملات طے پاچکے تھے جس کی تصدیق زلمے خلیل زاد کی جانب سے بھی کی گئی تھی تاہم کابل دھماکوں کے بعد امریکی صدر نے طالبان سے مذاکرات کا عمل اچانک منسوخ کردیا تھا۔بہرحال ان ملاقاتوں اور کاوشوں کا مقصد یہی ہے کہ افغانستان میں جلد امن قائم ہوسکے کیونکہ پاکستان اس کیلئے بہت کوشاں ہے تاکہ دہائیوں سے بدامنی کے شکار افغانستان سمیت خطے میں دیرپا امن قائم ہوسکے جبکہ حالات بھی یہی تقاضہ کررہے ہیں کہ تمام فریقین کو ملکر اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
کیونکہ اس وقت جس طرح سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جو دنیا کیلئے پریشان کن ثابت ہورہا ہے تو دوسری جانب افغانستان میں نہ ختم ہونے والی جنگ ایک درد سر بن کر رہ گیا ہے جس میں نہ صرف خود امریکہ جانی ومالی نقصان اٹھارہا ہے بلکہ اسے جنگ کے ذریعے کوئی کامیابی بھی نہیں مل رہی ہے بلکہ حالات دن بہ دن گھمبیر ہوتے جارہے ہیں لہٰذا اس کا واحد حل مذاکرات ہیں جو سب کے مفاد میں ہے۔
بہرحال قوی امکان ہے کہ جلد ہی امریکی سرکاری سطح پر ایک بار پھر یہ اعلان کیاجائے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کو دوبارہ بحال کیا جارہا ہے تاکہ کسی حتمی نتیجہ پر پہنچا جاسکے پھر امریکی فوج کا بھی آہستہ آہستہ انخلاء بھی شروع ہوجائے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ افغان طالبان کی ملاقاتیں اور پاکستان کی کاوشیں کس قدر رنگ لاتی ہیں تاکہ جنگی ماحول سے نکلتے ہوئے خطے میں استحکام پیدا ہوسکے۔
فی الوقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ افغان امن عمل ایک بار پھر شروع ہونے جارہا ہے یا پھر یہ صرف ملاقاتوں تک محدود رہے گی جبکہ مذاکرات کے حوالے سے صرف بازگشت سنائی دے رہی ہے مگر ملاقاتوں سے یہ نتیجہ اخذبھی کیا جاسکتا ہے کہ شاید امریکہ کی رضامندی مکمل اس میں شامل ہے کہ مذاکرات کو بحال کرکے پھرسے بات چیت کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے۔