|

وقتِ اشاعت :   October 8 – 2019

اسلام آبادلانگ مارچ کاحتمی اعلان جے یوآئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بلآخر کردیا جبکہ اس سے قبل دیگر اپوزیشن جماعتیں مارچ کی تاریخ میں توسیع چاہ رہی تھیں خاص کر مسلم لیگ ن نے اس پر زیادہ زور دیا تھا مگر مولانافضل الرحمان نے شاید یہ پہلے طے کرلیا تھا کہ اپوزیشن کی کوئی جماعت ان کے ساتھ حکومت مخالف مارچ میں شرکت نہ بھی کرے مگر وہ اپنے فیصلہ پر قائم رہینگے۔

جس کا اعلان انہوں نے گزشتہ روز کیا۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے کوئی واضح پالیسی بیان اس حوالے سے نہیں آرہی متضاد خبریں پیپلزپارٹی کی پوزیشن کو واضح کررہی ہیں کہ فی الوقت ان کی دلچسپی مولانا فضل الرحمان کے مارچ میں نہیں ہے کیونکہ ایک طرف مذہبی کارڈ اور دوسری جانب جمہوری نظام کوجمہوری انداز میں تبدیل کرنے کی بات کررہی ہے مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے۔

کہ اس لانگ مارچ کو زیادہ اہمیت اب حکومتی وزراء خود دے رہے ہیں آئے روز جو بیانات کا سلسلہ چل نکلا ہے تو عوام کی توجہ بھی اس پر مرکوز ہوگئی ہے جبکہ میڈیا بھی اسی پر نظریں لگائے رکھی ہے،اب لانگ مارچ کتنی کامیاب ہوگی یہ الگ بحث ہے البتہ حکومتی وزراء کے پریس کانفرنسز اور بیانات اس کی اہمیت بڑھارہے ہیں۔ گزشتہ روز ایک بار پھر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد مارچ کے دوران متوقع کریک ڈاؤن پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد جانے سے روکا گیا تو پورا ملک جام کر دیں گے،کشمیر کی جنگ ہم لڑ رہے ہیں۔

حکمران کشمیر پر سودے بازی کرکے کشمیریوں کا خون بھیج ر ہے ہیں، تقریر پر خوشیاں منانے والے یو ٹرن کے ماہر ہیں،ہم مدارسِ دینیہ کے دفاع کی جنگ لڑرہے ہیں، ہم مدارسِ کو کسی کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے،مذہبی کارڈ اور مدارسِ کے حوالے سے پروپیگنڈا کرنے والوں نے اپنے دھرنوں میں معصوم بچوں اور بچیوں کو لا کر قوم کا سر شرم سے جھکا دیا۔ 27 اکتوبر کو ملک بھر سے قافلے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوں گے اور پرامن طور پر اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے موجودہ حکمرانوں کے خلاف میدان عمل میں آئیں گے۔

آئین اور اس کی اسلامی شقوں کے تحفظ کی جنگ لڑنا اگر مذہبی کارڈ ہے تو یہ جنگ ہم ضرور لڑیں گے، آزادی مارچ کے لیے ہم نے مختلف پلان تیار کئے ہیں اور حکمت عملی طے کرنے کے بعد موقع پر اعلان کریں گے۔اس لانگ مارچ کے متعلق پہلے بھی یہی کہاجارہا تھا کہ مذہبی کارڈ استعمال کیاجارہا ہے کچھ حلقے اس کی مخالفت اورکچھ حمایت کررہے تھے مگر مولانا فضل الرحمان نے اپنی باتوں سے اس پر مہر تصدیق لگادی کہ وہ مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں جب مدارس کو قومی دھارے میں شامل ہونے کی بات کی جارہی ہے۔

تو اس پر ردعمل ضرور دینگے اس کے ساتھ ختم نبوت بھی اس دھرنے کا حصہ ہے،کوئی اس سے انکار یانظریں نہیں چراسکتا کیونکہ بینرز اور پوسٹرز جو مارچ کیلئے ہر جگہ آویزاں کی جارہی ہیں اس میں یہ نقطہ بھی واضح ہے ویسے مولانافضل الرحمان کی جماعت کا اپنا ایک اثر ملکی سیاست پر موجود ہے خاص کر کے پی کے اور بلوچستان میں سب سے زیادہ ہے اور اس وقت بھی بلوچستان اپوزیشن میں سب سے بڑی پارٹی ہے۔اگر مذہب کارڈ کا نا م نہ لیتے ہوئے عوامی ایشوز اور انتخابات کی مبینہ دھاندلی کا جو الزام لگایاجارہا ہے۔

انہی پر اکتفا کیا جاتا تو مذہبی کارڈ اس مارچ کے حوالے سے زیر بحث نہیں آتا اور ساتھ ہی مولانا فضل الرحمان کو ان حلقوں کی بھی نشاندہی کرنی چاہئے جن میں وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے زیادہ دھاندلی کے شہبات ہیں تاکہ اس پر حکومتی مثبت ردعمل سامنے آئے۔فی الوقت معاملات زیادہ کشیدہ دکھائی دے رہے ہیں اور قوی امکان ہے کہ لانگ مارچ کو روکنے کیلئے گرفتاریاں بھی ہوسکتی ہیں مگر یہ حکومت کے خلاف ہی جائے گا۔

اور ایک انتشار سی کیفیت پیدا ہوگی۔دوسری جانب اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے آزاد ی مارچ سے قبل اے پی سی یا رہبر کمیٹی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مخالف احتجاجی تحریک متفقہ طور پر چلا ئی جائے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے آزادی مارچ کی تاریخ کے اعلان کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں میں رابطے تیز ہوگئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے بیانات خود اس دعوے کی نفی کرتی ہیں کہ وہ ایک پیج پر ہیں کیونکہ مولانافضل الرحمان نے مارچ کااعلان تو کردیا ہے۔

اب اے پی سی طلب کرکے کون سا پلان مرتب کیاجائے گا۔ بہرحال اس وقت مقابلہ صرف جمعیت علمائے اسلام اور حکومت کے درمیان ہے دیگر اپوزیشن جماعتیں اس وقت میدان سے باہر ہیں اور شاید وہ فی الحال دھرنے میں شرکت کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتیں۔ ملک کی سیاست میں ایک بار پھر احتجاج زینت بن جائے گی اور مسائل زیادہ پیدا ہونگے۔

جہاں تک عوام کی بات ہے تو اس وقت ملک میں عوام کا مسئلہ نا قابل برداشت مہنگائی ہے اور عوام کے اندر موجود بے چینی کو حکومت اپنی پالیسیوں کے ذریعے ہی ختم کرسکتی ہے مگر یہ اس وقت ممکن ہوگا جب حکومتی اقدامات زمین پر دکھائی دینگی وگرنہ عوامی ردعمل کا عنصر بھی اس مارچ میں دکھائی دیا تو حکومت کے لیے ٹھہرنا مشکل ہوجائے گا۔