ملکی سیاسی تاریخ کے اوراق ہمارے انتخابات کی شفافیت پر ہمیشہ سوالیہ نشان کے طور پر دکھائی دیتے ہیں ماسوائے 1970ء کے انتخابات کے، جنہیں کسی حدتک شفاف تسلیم کیاجاتا ہے مگر ان انتخابات کے بعد سقوط ڈھاکہ کا المناک سانحہ پیش آیا۔ بہرحال سیاسی جماعتوں کا اس میں کتنا کردار رہا ہے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ آج جس طرح سے جمہوریت، قانون کی بالادستی، اداروں کی آزادی پر بات کی جارہی ہے اگر یہی سیاسی جماعتیں اول روز سے نیک نیتی کے ساتھ اس بیانیہ پر عمل کرتیں تو شاید آج ملک کی صورتحال کچھ اور ہوتی مگر اپنے مفادات کی بھینٹ سب کچھ چڑھایا گیا اور ملک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔اب اسے سیاسی یا معاشی طور پر لیں نتائج اسی طرح ہی برآمد ہونگے۔
بہرحال ایک بار پھر اسلام آباد میں سیاسی دنگل سجنے جارہا ہے مگر جس اذیت سے اسلام آباد کے رہائشی دوچار ہونگے اس کااندازہ گزشتہ طویل دھرنوں کے نتائج سے دیکھا جاسکتا ہے کہ جب لاک ڈاؤن ہوتا ہے تو معمولات زندگی ہر سطح پر مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں جسے وقتی طور پر صرف سیاسی قوت کامظاہرہ تو کہاجاسکتا ہے البتہ جن نتائج کی برآمدگی کی توقع رکھی جاتی ہے اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔اگر یہی دھرنے مفید اور کارآمد ہوتے تو شاید مسلم لیگ ن کی حکومت پہلے دھرنے کے دوران ہی ختم ہوجاتی مگر ایسا نہیں ہوا۔اب آزادی مارچ ہونے جارہا ہے جو سوالات اب حکمران جماعت کے وزراء اٹھارہے ہیں اس سے قبل یہی سوالات ان کے سامنے رکھے گئے،جوابات اور مؤقف ایک ہی ہیں جن میں کوئی فرق نہیں۔
اطلاعات آرہی ہیں کہ حکومت کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کو بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے روکنے کی کوشش جاری ہے۔مارچ کی نگرانی کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دے دی اور مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کو روکنے کیلئے رابطے بھی شروع کردیئے گئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت اہم رہنما ء بیک ڈور رابطوں کیلئے متحرک ہیں۔حکومت کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے کہ آزادی مارچ کو بیک ڈور رابطوں کے ذریعے روکا جائے۔بیک ڈور ڈپلومیسی کی ناکامی کی صورت میں پنجاب میں کہاں کہاں مارچ کو روکا جائے گا اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبائی وزیر قانون بشارت راجہ کی سربراہی میں ایک مانیٹرینگ کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
کمیٹی مارچ کو روکنے کے حوالے سے اپنی تجاویز مرتب کرے گی۔ پنجاب میں جے یو آئی (ف) اور مسلم لیگ نواز کے متحرک کارکنان کی فہرست تیار کرنے کے بھی احکامات دیے گئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق وزارت داخلہ نے صوبوں سے مولانا فضل الرحمان کے حمایتی مدارس کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
وزارت داخلہ نے مولانا فضل الرحمان کا ساتھ دینے والی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کی فہرستیں بھی طلب کی ہیں۔بتایا جارہا ہے کہ ان تنظیموں کے زیر انتظام چلنے والے مدارس، اساتذہ اور طلباء کے کوائف بھی مانگ لیے گئے ہیں۔وزارت داخلہ نے چاروں صوبوں کے محکمہ داخلہ سے اہم معلومات اکٹھی کرنا شروع کردی ہیں۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی وطن واپسی پر اہم اجلاس طلب کیا جائے گا جس میں آزادی مارچ کو اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جائے گاجبکہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں اہم اداروں سے مشاورت کے لیے وزیراعظم اجلاس میں فیصلہ کریں گے۔
حکومتی حکمت عملی فی الحال اطلاعات تک ہی محدود ہیں مگر حکومتی وزراء کے بیانات سے یہ واضح ہے کہ آزادی مارچ کو روکنے کیلئے بھرپور کوشش کی جائے گی اگرکریک ڈاؤن کیاجائے گا تب بھی صورتحال گھمبیر ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ ملک کے اندراحتجاجی دھرنوں کی سیاست روایت بنتی جارہی ہے حکمران اور اپوزیشن ایک دوسرے پر دباؤ برقراررکھنے کیلئے یہ طریقہ اپنارہے ہیں کاش کہ سیاسی جماعتیں سرجوڑ کر ملک کو درپیش سیاسی ومعاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایک جگہ دکھائی دیتے تو ملک میں موجود بحرانات سے نکلنے میں مدد ملتی مگر سیاسی جماعتوں کو اپنے مفادات زیادہ عزیز ہیں جس کی ہماری 70سالہ سیاسی تاریخ گواہ ہے اور یہ سیاسی کلچر آنے والے وقت میں ملک کیلئے مزیدمسائل پیداکرے گا جوکہ عوامی مفادات کے بالکل برعکس ہے۔