پاکستان تحریک انصاف میں دھڑے بندی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین متعدد بارایک دوسرے پر جملوں کے وار کرتے رہے ہیں جس کا مظاہرہ دونوں مرکزی قائدین نے باقاعدہ میڈیا کے سامنے بھی کیا ہے، وزیراعظم عمران خان نے دونوں کے درمیان موجود اختلافات کو دور کرنے خاص کر میڈیا کے سامنے ایک دوسرے کے خلاف بات کرنے پر سختی سے ممانعت کی تھی باوجود اس کہ دونوں رہنماؤں کو پارٹی معاملات پرمدِمقابل دیکھاگیا ہے۔
عام انتخابات میں اس کی جھلک اس وقت دکھائی دی جب حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو اس دوران بلوچستان کی وزارت اعلیٰ اور حکومت بنانے کیلئے عمران خان کے ساتھ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں نے ملاقات کی، ملاقات کے دوران معاملات حکومت سازی تک اتفاق کیا گیا مگر وزارت اعلیٰ کا حتمی فیصلہ اس ملاقات کے دوران نہیں کیا گیا تھا مگر جیسے ہی یہ ملاقات ختم ہوئی تو جہانگیر ترین بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر جام کمال خان سمیت دیگر رہنماؤں کے ساتھ میڈیاسے بات چیت کے دوران اعلان کرتے ہیں کہ بلوچستان میں نہ صرف حکومت بنانے بلکہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے نام پر بھی اتفاق کیا گیا ہے جس میں امیدوار جام کمال خان ہونگے مگر تھوڑی ہی دیر بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماء میڈیا پر آکر اس کی تردید کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ صرف حکومت سازی پر گفتگو ہوئی تھی.
وزیراعلیٰ کے نام پر حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا اور اس طرح جہانگیر ترین کی میڈیا بات چیت میں کی جانے والی بات کی تردید کی گئی۔ بہرحال اس دوران میڈیابات چیت کے دوران یہ بھی واضح دیکھنے کوملتا ہے کہ جیسے ہی جہانگیر ترین وزیراعلیٰ کے متعلق بات کرتے ہیں تو اس دوران نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی کے چند ایک اہم رہنماء وہاں سے چلے جاتے ہیں بلکہ پی ٹی آئی بلوچستان کے اہم رکن بھی اسی دوران نالاں ہوکر غائب ہوجاتے ہیں۔
حال ہی میں خود اس بات کا اعتراف پی ٹی آئی کے رہنماء سرداریارمحمد رند نے آزادی ویب انٹرویو کے دوران بھی کیا تھا کہ جب عام انتخابات کے بعد وہ اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچے تو اس دوران انہوں نے نہ صرف حکومت سازی بلکہ وزارت اعلیٰ کے متعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطے شروع کئے تھے بلکہ اپوزیشن جماعتوں نے بھی خود سردار یارمحمد رند سے رابطہ کرکے حکومت سازی میں شامل ہونے کیلئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی جس کے بعد جہانگیر ترین فون کرکے سردار یارمحمد رند کو باپ کی حمایت کرنے کا فیصلہ سنادیتے ہیں بلکہ مکمل تعاون کیلئے بھی انہیں کہا جاتا ہے جس پر سردار یارمحمد رند کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین بلوچستان کے معاملات میں برائے راست مداخلت کرتے ہیں جو کہ جمہوری وسیاسی رویہ نہیں ہے۔
بہرحال شاہ محمود قریشی کے متعلق سردار یارمحمد رند نے تردید کی کہ وہ پارٹی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔اب سندھ سے یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف میں شدید اختلافات کا وزیر اعظم عمران خان نے نوٹس لیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے پی ٹی آئی سندھ کی پارلیمانی پارٹی میں شدید اختلافات کا نوٹس لیتے ہوئے گورنر سندھ عمران اسماعیل سے رپورٹ طلب کر لی۔پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے گورنر سندھ سے اختلافات کی تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ سندھ اسمبلی میں پارٹی اراکین کیوں آپس میں لڑ رہے ہیں۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے وزیر اعظم کے نوٹس لینے کے بعد پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس جمعہ کو گورنر ہاؤس میں طلب کیاتھا۔اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے کئی اراکین سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی سے ناراض ہیں اور بیشتر اراکین قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔پاکستان تحریک انصاف میں دھڑہ بندی اب دیگر صوبوں تک پھیل رہی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ میں کس کی مداخلت ہے بہرحال یہ پی ٹی آئی کیلئے مستقبل میں مشکلات پیدا کرسکتی ہے کیونکہ پہلے سے ہی پی ٹی آئی کوحکومتی معاملات میں بعض مشکلات کا سامنا ہے دوسری جانب پارٹی انتشارنئے چیلنجز پیدا کرے گی جوکہ پی ٹی آئی کے مستقبل کی سیاست کیلئے نیک شگون نہیں۔