بلوچستان کی روایات اور تاریخ کو بعض جگہ مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے کہ یہاں خواتین پر مظالم زیادہ ڈھائے جاتے ہیں انہیں مرد کے مقابلے میں نچلے درجے کی حیثیت دی جاتی ہے یہ وہ زہریلا پروپیگنڈہ ہے جسے کچھ عناصر اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ کاروکاری کو بھی بلوچستان کے حصہ میں ڈالا جاتا ہے کہ قبائلی معاشرہ سخت اورپا بند ہے گویا ہر چیز پر پابندی عائد کی گئی ہے تعلیم سے لیکر خواتین کی آزادی تک یہ سب کچھ بلوچستان کے گلے ڈالاجاتا ہے مگر تاریخی طور پر بلوچستان ایک روشن خیال معاشرہ رہا ہے اس میں سب کے حقوق برابر ہیں۔ اقلیتیں،خواتین، مرد، غریب اور امیر، سب کے حقوق یکساں ہیں۔ چند برس پہلے چند سازشی شدت پسند عناصر نے خواتین پر تیزاب پھینکنے کا عمل شروع کیا تھا خاص کر تعلیمی اداروں اور بازاروں میں جانے والی خواتین پر یہ حملے کئے گئے۔
نقاب پوش شدت پسند گروہ اس میں ملوث رہے ہیں اب ایک بار پھر یہ سلسلہ چل نکلا ہے جہاں خواتین کے چہروں پرتیزاب پھینکا جارہا ہے۔اور یہ سب کچھ کوئٹہ شہر میں ہورہا ہے جہاں پر کسی ایک قبیلہ یا سردار کا اثر نہیں بلکہ یہاں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بلوچ اور پشتون روایات کے بالکل برعکس ہے۔ایسے واقعات میں چندنجی سطح پر جبکہ دیگر میں شدت پسندنظریات سے تعلق رکھنے والے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔
حالیہ واقعہ پہلانہیں ہے اس سے پہلے بھی کئی ایک واقعات ہوچکے ہیں ان میں ایک واقعہ قلات میں بھی پیش آیا تھا۔ انتہا پسند اور مذہبی جنونی مجرموں نے خواتین پر قلات میں تیزاب سے حملہ کیا تھا۔ گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی اجلاس کے دوران بی این پی کی خواتین ارکان شکیلہ نوید دیوار اور زینت شاہوانی نے تیزاب گردی کے خلاف مشترکہ قرار داد پیش کی، شکیلہ نوید دہوار نے کہا کہ چند ماہ قبل صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں عورتوں اور بچوں پر چار افراد کی جانب سے تیزاب پھینکا گیا جس کے نتیجے میں دو خواتین اور ایک بچہ جھلس کر زخمی ہوئے۔
اس سے قبل بھی کوئٹہ شہر میں تیزاب گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بالخصوص کوئٹہ شہر کی خواتین اور بچوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔یہ انتہائی قابل تحسین اقدام اٹھاکرخواتین ارکان نے واضح کردیا ہے کہ بلوچستان کی سرزمین ایسی شرانگیزی کی اجازت نہیں دیتی اوریہ ہماری روایات کے منافی عمل ہے۔بلوچستان میں خواتین کی اہمیت کا اندازہ قبائلی تنازعات میں تصفیہ کے دوران بخوبی دیکھا جاسکتا ہے جہاں خواتین کی چادر پر برسوں کی دشمنی کا خاتمہ کرکے شیر وشکر ہوا جاتا ہے۔
درحقیقت ان واقعات کے عوامل افغان وار کے دوران بنائے گئے پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے بلوچستان شدید متاثر ہوکر رہ گیا ہے، بلوچستان میں شدت پسندی بڑھتی گئی اور اس نے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور آج تک شدت پسندی کے بڑے بڑے واقعات رونما ہوچکے ہیں ایک بڑی آبادی کی یلغار نے نہ صرف ہماری آبادی کے تناسب کو بگاڑ کررکھ دیا ہے بلکہ ہماری صدیوں پرانی روایات کو بھی زک پہنچایا ہے اس لئے بلوچستان سے ہروقت یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ خدارا جلدازجلد بلوچستان سے غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کو یقینی بناکر یہاں کے عوام کو سکون کا سانس لینے دیا جائے۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان کا سماجی ڈھانچہ متاثر ہوکررہ گیا ہے مگر وفاقی حکومت اس جانب توجہ ہی نہیں دیتی کہ مہاجرین کی باعزت واپسی کے حوالے سے اقدامات اٹھائے تاکہ اس طرح کی شدت پسندی کا خاتمہ ہوسکے۔