گزشتہ روز اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ نے بی ایم سی ہاسٹل میں ہاؤس جاب ڈاکٹرز کے ساتھ جو رویہ اپنایا، عوامی سطح پر اس کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے جس طرح سے اے سی صاحبہ نے ڈاکٹروں کی تذلیل کی، ان کو بے دخل کیا اور اپنی حیثیت منوانے کا روش اپنایا یقینا اس طرح کے عمل کو جاہلانہ ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں تعلیم یافتہ اور پھر ایک ذمہ دار آفیسرکی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے والی خاتون سے اس طرح کے رویہ کی تو قع نہیں رکھی جاتی، سرکاری افسروں کا کام صرف عوام الناس کی خدمت کرنا ہے اور اپنی حدود میں رہ کر اختیارات کا استعمال کرنا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں صدیوں پرانے سامراجی نظام کی نفسیات آفیسران پر حاوی ہیں جس کی وجہ وہ سامراجی رویہ اپناتے ہیں تاکہ ان کے پروٹوکول کو چیلنج نہ کیاجاسکے بلکہ ان کا خوف عوام پر طاری ہو۔بہرحال یہ خواتین ڈاکٹروں کا معاملہ تھا جنہیں رات کے اوقات ہاسٹل سے نکالنا کون سی اخلاقیات اور قانون کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکاری افسران کی تعیناتی کے دوران انہیں تربیت نہیں دی جاتی کہ عوام کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے اور ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرناہے کیونکہ یہ عوام کے خادم ہوتے ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے لوگوں کے مسائل کوکم کرنا نہ کہ اپنی حیثیت کا دھاک بٹھانا کہ صرف وہی اس شہر کے ماہی باپ ہیں۔
عوام کی ٹیکس سے ملنے والی تنخواہ کا مقصد ان کی مشکلات میں کمی لانا ہے رات کے وقت ان کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنا نہیں۔ گزشتہ روزبلوچستان اسمبلی میں حکومت اورحزب اختلاف کے اراکین نے بی ایم سی ہاسٹل سے ہاؤس جاب ڈاکٹرز کو بے دخل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی اراکین پر مشتمل کمیٹی کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ ارکان اسمبلی نے احتجاج پر بیٹھے مظاہرین پر تشدد کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر داخلہ نے اسمبلی فلور پر یقین دہانی کرائی تھی کہ انہوں نے واقعے کی رپورٹ طلب کی ہے تاہم آج احتجاجی مظاہرین پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست ماں باپ کا درجہ رکھتی ہے اور آئین میں ہر شہری کو تقریر، تحریر اور احتجاج کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ایک آفیسر کو بچانے کے لئے احتجاج پر بیٹھے افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ پرامن مظاہرین پر تشدد کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف کارروائی یقینی بناتے ہوئے عوام پر درج مقدمہ واپس لے۔بہرحال بی ایم سی میں رونما ہونے والے اس سفاکانہ واقعہ کی شفاف تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ اصل حقائق کو سامنے لایا جاسکے کہ کیونکر رات کے وقت اے سی صاحبہ کو یہ زحمت اٹھانی پڑی کہ بی ایم سی ہاسٹل سے خواتین ڈاکٹروں کو بے دخل کیاجائے،کس کی ایماء اور کہنے پر اے سی صاحبہ نے رات کے وقت خواتین ڈاکٹروں کو اذیت میں مبتلا کیا جنہیں مجبور ہوکر سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑا۔
ہمارے یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب بھی اس طرح کا واقعہ سامنے آتا ہے تو معاملے کو رفع دفع کرکے وقتی طور پر جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے، پھر دوسرے واقعہ کا انتظار کیا جاتا ہے۔ محض خانہ پری سے معاملات کو حل کرکے انتظامی امور میں بیڈگورننس کا ثبوت دیا جارہاہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس واقعہ کے تمام محرکات جاننے کیلئے تحقیقات کرے تاکہ آئندہ اس طرح کا غیر مہذبانہ رویہ انتظامی آفیسران نہ اپنائیں، ان کے ذمہ جو کام ہے پہلے وہ احسن طریقے سے کریں،اس وقت شہر میں بہت سارے ایسے مسائل ہیں جہاں انتظامیہ آفیسران کا کردار صفر دکھائی دیتا ہے۔
بہرحال خاتون اے سی کو اس پر ندامت ہونا چاہئے اس لیے بھی کہ ایک خاتون ہوکر وہ دوسری خواتین کے ساتھ ہتک آمیز رویہ کیسے اپنا سکتی ہیں، کیا فرائض کی ادائیگی اتنی ضروری تھی کہ موصوفہ کورات کے اوقات ہی میں اس پر عمل کرنا پڑا، اس کے لیے دن کا انتظار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ضروری ہے کہ موصوفہ آئندہ اس طرح کے عمل سے گریز کریں تاکہ عوام میں ان کا امیج مزید خراب نہ ہو، بے بس خواتین ڈاکٹروں کو ہاسٹل سے نکالنے سے پہلے شہر اور شہریوں کے دیگربڑے بڑے مسائل ہیں جنھیں حل کرنا زیادہ ضروری ہے۔