|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2019

جمعیت علمائے اسلام ف کی جانب سے احتجاجی دھرنا اور مارچ کو حتمی شکل دینے کیلئے پہلے اپوزیشن جماعتوں پر اتفا ق نہیں ہورہا تھا مگر مولانا فضل الرحمان نے احتجاج اور اسلام آباد لاک ڈاؤن کی تاریخ میں توسیع کا حتمی اعلان کردیا۔ بہرحال اس وقت سب کی نظریں جمعیت علمائے اسلام ف کے احتجاج پرلگی ہوئی ہیں اورمسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بھی اب اس احتجاج میں شامل ہوگئی ہیں۔

اس سے قبل دنوں جماعتوں نے کھل کر اعلان نہیں کیا تھا مگر اب مسلم لیگ ن احتجاجی جلسے میں مکمل شرکت کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی فی الوقت اخلاقی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی احتجاجی دھرنے میں شمولیت کو یقینی نہیں سمجھا جارہا تھاگمان یہ تھا کہ کوئی درمیانہ راستہ نکالاجائے گا اور اس کیلئے دھرنے کی مدت میں توسیع کی جائے گی۔

حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی شہباز شریف کے متعلق یہی باتیں کی جارہی تھیں کہ وہ سمجھداری سے کام لیتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے احتجاج میں شرکت نہ کرنے پر زور دینگے کیونکہ مسلم لیگ ن کے حوالے سے یہ افواہیں زوروں پر تھی کہ یہ دودھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے اور ہر دھڑاالگ الگ رائے رکھتی ہے مگر میاں محمد نواز شریف کے خط اور پیشی کے دوران بات چیت کے بعد پر انہوں نے آزادی مارچ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔

دوسری جانب وزیرریلوے شیخ رشید نے گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کے دوران جمعیت علمائے اسلام ف کے احتجاجی دھرنے کے متعلق کہاکہ اس بارجمہوریت پر شب خون مارا گیا تو فیصلے جلد ہوں گے اور چار سے چھ سو لوگوں کو اندر کر دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت بہت نازک ہے اور مولانا فضل الرحمان کا دھرنا بھی ابھی گرے لسٹ میں ہے، میری درخواست تاخیر سے سنی گئی لیکن عمران خان نے کمیٹی بنا دی ہے کیونکہ مذاکرات کے دروازے بند کرنا جمہوریت کیخلاف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن کے اشاروں پر مولانا کھیلنے جارہے ہیں ان کی سیاست تباہ ہو جائے گی اور اگر سارے چودھری مر جائیں تب بھی مولانا کو اقتدار نہیں ملے گا۔ دینی طاقتوں کا ترجمان ہوں، فضل الرحمان اور علماء سے معاملات 21 سے 26 تک بہتر ہوجائیں گے،انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ایکشن میں ہے اور فضل الرحمان امن و امان کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ نواز شریف اور آصف زرداری فضل الرحمان کی پشت پناہی کررہے ہیں۔

حکومتی وزراء کے بیانات میں تلخی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ حکومتی کمیٹی سے کامیاب مذاکرات کے امکانات موجود نہیں جبکہ مولانافضل الرحمان نے مذاکرات کرنے سے پہلے وزیراعظم کا استعفیٰ ساتھ لانے کی بات کی ہے جس پر وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ دنوں شدید ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ موجودہ حکومت بغیر ڈیزل کے چل رہی ہے جس کے بعد یہ توقع رکھنا کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے راستے کھل جائینگے تو ایسا ممکن نہیں کیونکہ جس طرح کے ردعمل اور بیانات سامنے آرہے ہیں اس سے سیاسی ماحول گرم ہوتا جارہا ہے،ایک طرف یہ بھی کوشش کی جارہی ہے کہ جرگہ کے ذریعے معاملات کو حل کیاجائے۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک،مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے بھائی سے بات چیت کرینگے مگر نتیجہ اس سے بھی کچھ برآمد ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ مولانا فضل الرحمان نے احتجاج اور دھرنے کافیصلہ کرلیا ہے، اس کے بعد نتائج کیا برآمد ہونگے فی الوقت نہیں کہا جاسکتاالبتہ ماضی گواہ ہے کہ دھرنوں سے حکومتیں ختم نہیں ہوئیں،اِن ہاؤس تبدیلی اس وقت ممکن ہوگی جب جمعیت علمائے اسلام ف، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائیں۔

اس کے بھی کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے مگر جو کچھ ہورہا ہے یہ ماضی کی سیاست کا ردعمل ہے اور اس تمام احتجاج کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ لاک ڈاؤن ہوگا تو معمولات زندگی متاثر ہوگی مگر سیاسی فیصلوں پر جماعتیں اپنے مفادات کو اولیت دیتی ہیں جہاں عوام جزوی معنی رکھتے ہیں۔