بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر چلنے والی بیشتر گاڑیوں میں پیٹرول اور ڈیزل لوڈ ہوتے ہیں جو ایرانی سرحد سے لیکر ملک کے اندرونی حصوں تک ترسیل کی جاتی ہے گزشتہ کئی برسوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اس دوران ہولناک حادثات بھی رونما ہوچکے ہیں جس میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں حد یہ ہے کہ مسافر کوچز کو بھی اب پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
کیونکہ اس میں منافع بہت ہے جبکہ کرایوں کی مد میں مالکان کو اتنا نہیں ملتا جتنا اسمگلنگ کے ذریعے پیٹرول اور ڈیزل سے ملتا ہے،مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اتنی طویل مسافت کے دوران درجنوں چیک پوسٹیں آتی ہیں جن کا مقصد ہی غیر قانونی کاموں کو روکنا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے بڑے گیلن اور کین جو مسافر کوچز سمیت چھوٹی بڑی گاڑیوں کے ذریعے ایران کے سرحدی راستوں سے بلوچستان کی شاہراہوں تک پہنچتی ہیں ان کی کوئی چیکنگ نہیں ہوتی، یقینا اس سے بہت سی شکوک و شہبات پیدا ہوتی ہیں کیونکہ بغیر ملی بھگت کے مجال ہے کہ کوئی معمولی،غیر قانونی چیز بھی آنکھوں سے اوجھل رہے۔
یہ ذمہ داری تو پہلے صوبائی حکومت کی بنتی ہے جس کا مقصد عوام کی جان ومال کوتحفظ فراہم کرنا ہے اور بلاتفریق اس حوالے سے اقدامات اٹھانا ہے سب سے بڑی گڈگورننس یہی ہے آئے روز ہمارے یہاں گڈ گورننس کی بات کی جاتی ہے مگر قومی شاہراہوں پر رونما ہونے والے سانحات پر کوئی خاص اقدام دکھائی نہیں دیتا جس کا سلسلہ نہ صرف موجودہ بلکہ ماضی کی حکومتوں سے چلتا آرہا ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ بعض سیاسی شخصیات خود اس کاروبارکو جائز قرار دیتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ یہ بلوچستان کے عوام کی بڑی تعداد کا ذریعہ معاش ہے یعنی معاشی پالیسی اور روزگار موجود نہیں تو اسمگلنگ کے ذریعے غیر قانونی کاروبار کو ہی جائز قرار دیکر جان چھڑائی جائے۔اگر دیکھاجائے تو ایران کے ساتھ قانونی تجارت کے ذریعے بھی تیل کی ضروریات کوپورا کیاجاسکتا ہے بلکہ روزگار کے بڑے مواقع انہی تجارتی معاہدوں کے ذریعے بلوچستان میں ترقی برپا کرے گی مگر بدقسمتی سے ہمیشہ ایران کی جانب سے کی گئی اس پیشکش کو ٹھکرادیا گیا اورنتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہمارے یہاں لوگ غیر قانونی سرگرمیوں کے ذریعے کاروبار کررہے ہیں جس کی وجہ سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ روز قلات کے علاقہ بنیچہ میں کمشنر مکران کیپٹن (ر) طارق زہری ایسے ہی ایک واقعہ میں جاں بحق ہوگئے جس کے بعد اسمبلی ارکان بھی خوب برسے مگر یہ غیر قانونی کاروبار گزشتہ کئی برسوں سے چلتا آرہا ہے، ہر سانحہ کے بعد جذباتی ہونا مسائل کا حل نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر قانون سازی کی جائے اور حکومت واپوزیشن جماعتیں مل کر اس مسئلے کا حل نکالیں تاکہ بلوچستان کے عوام سانحات سے بچ سکیں اور یہاں کاروباری سرگرمیاں بھی جاری رہیں مگر اس کیلئے ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس بھی معاشی پالیسی کا روڈ میپ ہونا ضروری ہے تاکہ وہ وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے بلوچستان سے جڑے ممالک کی سرحدوں کے ساتھ باقاعدہ تجارت کو فروغ دینے کیلئے قانونی طریقے سے کاروبارکریں،اس سے نہ صرف بلوچستان بلکہ قومی خزانے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
المیہ یہ ہے کہ ایران نے متعدد بار بجلی کی فراہمی کی بھی پیشکش کی تھی جس پر کوئی کان نہیں دھرا گیا اگر ایران کے ذریعے بلوچستان کو بجلی فراہم کی جائے تو یہاں صنعتی انقلاب آئے گا اسی طرح تیل سمیت دیگر مصنوعات کی لین دین کی جائے تو بلوچستان میں معاشی مسائل کا خاتمہ یقینی ہوجائے گا بہرحال یہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ سانحات کا انتظار کرکے وقتی جذبات کا اظہار کرینگے یا پھر بلوچستان کے عوام کی فلاح وبہبود ترقی کیلئے حقیقی معنوں میں جدوجہد کرکے معاشی پروگرام تشکیل دینگے۔