|

وقتِ اشاعت :   October 22 – 2019

27اکتوبر قریب آتے ہی سیاسی ماحول میں گہماگہمی بڑھتی جارہی ہے، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مارچ میں شرکت کی بھرپور حمایت سامنے آرہی ہے جبکہ دھرنے کے متعلق اب تک کچھ بھی واضح نہیں ہے مگر جمعیت علمائے اسلام ف کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان تاحال برقرار ہے۔مسلم لیگ ن، اے این پی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ دھرنے میں شرکت کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ پیپلزپارٹی اس حوالے سے اپنا الگ مؤقف رکھتی ہے۔

گزشتہ روز روالپنڈی میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کے دوران بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں احتجاج کریں لیکن ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے تیسری قوت کو موقع ملے۔بلاول بھٹو نے کہاکہ عوام موجودہ حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں، پاکستان جیسا ملک چلانا کرکٹ میچ نہیں ہے، ان کو نہیں پتا سیاست کیسے کرنی ہے، عمران خان نے پارلیمنٹ کو تالہ لگادیا ہے اور پارلیمانی نظام کو چلنے نہیں دیا جا رہا۔انہوں نے سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا کہ تمام سیاسی جماعتیں احتجاج اور جلسے کریں لیکن ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں جس سے تیسری قوت کو موقع ملے، کمزور جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔

بلاول کے اس بیان کا تجزیہ کیاجائے تو پیپلزپارٹی سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کی جانب اشارہ دے رہی ہے تاکہ اس طرح کا ماحول پیدا نہ ہو کہ حالات سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے نکل جائیں۔بہرحال مولانافضل الرحمان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا جو ماحول بننا چاہئے وہ دکھائی نہیں دے رہا اور تلخی زیادہ نظر آرہی ہے، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اداروں کے ساتھ تصادم پر یقین نہیں رکھتے لیکن آزادی مارچ ہر صورت میں ہوگا۔حکومت کے ساتھ مذاکرات کا کوئی امکان نہیں ہے۔وزیر اعظم کے استعفیٰ کے بغیر مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم حکومتی وزراء کی دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں۔ملک کی خاطرہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔25جولائی کے موقف پر اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔

ہمارے دروازے تمام سیاسی جماعتوں کے لئے کھلے ہیں جو بھی آزادی مارچ میں شرکت کرنا چاہے ہمیں قبول ہے کیونکہ ہم سب کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ عوام کو جعلی حکومت سے نجات دلائیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان پر مشکل وقت آیا تو ڈنڈا بردار محاذ پر ہوں گے۔مولانا فضل الرحمان نے جو ڈنڈے کا ذکر چھیڑدیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام آباد لاک ڈاؤن کی صورت میں تصادم کے قوی امکانات موجود ہیں اور یہی ملک کے اندر سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔

اگر معاملات کو ایک بار پھر مذاکرات کی نہج پر لانا ہے تو سب سے پہلے حکومت کو سخت بیانات کی بجائے پرامن ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی درمیانہ راستہ نکل آئے کیونکہ گزشتہ دنوں جس طرح کے بیانات سامنے آئے اس نے مزید ماحول کو گرما دیا ہے کیونکہ حکومت کا کام سیاسی ماحول کو ساز گار بنانا ہوتا ہے اور یہی حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے تاکہ ملک کے اندرونی حالات ٹھیک رہیں جس طرح سے ملک معاشی صورتحال سے دوچار ہے اورعوام پریشانیوں میں جھکڑی ہوئی ہے ان حالات میں عوامی مشکلات مزید بڑھ جائینگی۔

اسلام آباد لاک ڈاؤن سے نظام مفلوج ہوکر رہ جائے گا اس لئے ضروری ہے حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کرکوئی راستہ تلاش کریں تاکہ ملک کے اندر صورتحال خراب نہ ہو۔اس وقت ملک بیرونی چیلنجز کا بھی سامنا کررہی ہے جن سے اسے نکالنا سیاسی جماعتوں کی اولین ذمہ داری ہے۔