|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2019

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت گزشتہ روز ہونے والے اجلاس کے دوران دھرنے اور مارچ کے متعلق امور پر غور وخوض کیا گیا جبکہ اپوزیشن سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کے متعلق وزیراعظم کواعتماد میں لیا، پرویزخٹک نے کہاکہ کوشش کریں گے کہ 27 اکتوبر سے پہلے اپوزیشن کو مذاکرات پرآمادہ کرلیں، امید ہے مولانا فضل الرحمان ہماری بات مان جائیں گے۔

وزیراعظم عمران خان نے کمیٹی کو ایک بار پھراپوزیشن سے مذاکرات کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کے حق کو تسلیم کرتے ہیں، اسلام آباد میں احتجاج سے متعلق عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، عدالتی فیصلوں کے مطابق اپوزیشن کو احتجاج کی اجازت دی جائے گی، عدالتی فیصلوں کے مطابق کسی کوسڑکیں بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ان فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے حکمت عملی وزارت داخلہ طے کرے گی۔

دوسری جانب سینئر صحافیوں سے بات چیت کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر بھارتی حکومت کے جبر و تسلط کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا رہے گا،حکومت کی کوششوں کی بدولت مسئلہ کشمیر آج عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے،پلوامہ واقعے کے بعد حکومت نے موثر طریقے سے جھوٹے بھارتی دعوؤں اور چالوں کو اقوام عالم کے سامنے بے نقاب کیا،حکومتی کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں اور معیشت استحکام کی جانب گامزن ہے،موجودہ حکومت جمہوری اصولوں پر مکمل یقین رکھتی ہے۔

اپوزیشن کو بھی اپنا جمہوری حق استعمال کرنے کا مکمل حق ہے تاہم یہ حق ملکی قوانین، آئین اور اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں استعمال کیا جانا چاہیے، آزادی مارچ کے پیچھے اندرونی اور بیرونی ایجنڈا ہے،تفصیلات نہیں بتا سکتا،کسی صورت مستفعی نہیں ہوں گا،مولانا فضل الرحمان کا چارٹر آف ڈیمانڈ واضح نہیں، آزادی مارچ کی اجازت دیں گے، مولانا کی تقریر نشر کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے،مولاناکے مارچ سے کشمیرکازکونقصان ہورہاہے،ن لیگ اور پیپلزپارٹی مولانا کے پیچھے ہیں۔

حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو احتجاج کرنے کی اجازت دینے کافیصلہ جمہوریت کے عین اصولوں کے مطابق ہے کسی بھی سیاسی جماعت کااحتجاج کرنا آئینی حق ہے مگر اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ان احتجاج اور مارچ سے عوام کو کتنی مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے ویسے بھی تاجر برادری اور عوام معاشی تنزلی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں جب اسلام آباد کا لاک ڈاؤن ہوگا تو اس کا برائے راست اثر کاروبار اور عوام پر ہی پڑے گا بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے احتجاج اب سیاسی روایات کا حصہ بن چکی ہیں حالانکہ ماضی میں بھی حکومتوں کے خلاف طویل احتجاج اور دھرنے دیئے گئے مگر ان سے حکومتوں پر کوئی فرق نہیں پڑا، البتہ معیشت پر اس کے انتہائی منفی اثرات پڑے جبکہ موجودہ معاشی صورتحال تو احتجاج اور دھرنوں کامتحمل ہوہی نہیں ہوسکتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وزیراعظم کے استعفیٰ کا معاملہ ہے تو اپوزیشن کے ارکان پہلے خود اسمبلیوں سے مستعفی کیوں نہیں ہورہے،کیا اسلام آباد لاک ڈاؤن ہی واحد راستہ ہے، اِن ہاؤس تبدیلی بھی تو ایک طریقہ ہے مگر جس طرح سارا زور احتجاج پر ہے اس سے عام لوگوں کے مسائل میں اضافہ ہوگا جبکہ وزیراعظم نے دوٹوک انداز میں اپنا مؤقف واضح کردیا ہے کہ وہ مستعفی نہیں ہونگے، اس کا خیال ہی دل سے نکالا جائے بہرحال تصادم کے خدشات موجود ہیں اس سے بہتر یہی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے درمیانہ راستہ نکالاجائے تاکہ عوام کی مشکلات میں مزیداضافہ نہ ہو۔