ملک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ایسا دوہرانظام چلتا آرہا ہے کہ اسے چیلنج کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے عام لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس اسی نظام کا حصہ ہے۔گزشتہ روز ساہیوال سانحہ میں ملزمان کی بریت کا معاملہ زیر بحث ہے گوکہ عدم شہادت کی بنیاد پر ان ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر رہا کردیا گیا ہے مگر اس فیصلہ نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے،وہی لواحقین جو واقعہ کے بعد سراپااحتجاج دکھائی دے رہے تھے اور میڈیا پر انہوں نے کھل کر اس بات کا اظہار کیا تھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون موصول ہورہے ہیں یقینا وہ فون اسی کیس سے جڑے ملزمان کے متعلق ہی آرہے تھے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ فیصلہ کے فوری بعد ویڈیو بیان متاثرہ خاندان کی جانب سے سامنے آتا ہے کہ وہ فیصلہ سے مکمل مطمئن ہیں نیزاس مسئلہ کو زیادہ نہ اچھالاجائے اور نہ ہی اس پر سیاست کی جائے۔ جبکہ اس سے قبل اس کیس کو سب سے زیادہ متاثرہ خاندان نے خود ہی اچھالا اور جو الزامات وہ لگارہے تھے اب کس طرح سے وہ اپنے ہی دیئے گئے بیانات سے مکرتے نظر آرہے ہیں۔بعض اطلاعات یہ بھی آرہی ہیں کہ متاثرہ خاندان کو دیت دی گئی ہے جس کا شاید اظہار کرنے میں متاثرہ خاندان پس و پیش سے کام لے رہا ہے۔ بہرحال یہ پہلا واقعہ ملک کے اندر نہیں ہو ا،ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، ماڈل ٹاؤن واقعہ، بلدیہ ٹاؤن سانحہ، صلاح الدین کیس سمیت دیگر واقعات موجود ہیں ان تمام سانحات پر متاثرین کو انصاف نہیں ملا بلکہ کسی نہ کسی طریقے سے ان معاملات کو دبانے کیلئے دیت یا پھر شخصیات کا استعمال کیاگیا اور بعض کیسز میں گواہان عدم تحفظ کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک یہ سب کچھ چلتا رہے گا،کیا عام لوگوں کیلئے قانون کچھ اور بااثر افراد کیلئے کچھ ہے سب سے بڑی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے متاثرین کو مکمل تحفظ فراہم کرے تاکہ قانون سے کوئی بالاتر ہوکر اس کی دھجیاں نہ اڑائے۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے سانحہ ساہیوال کے حوالے سے خصوصی عدالت کے فیصلے پر پنجاب حکومت کو اپیل دائر کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ اگر مقتولین کا خاندان مدعی نہیں بنتا تو ریاست اس مقدمے کی مدعیت کرے گی، بچوں کے سامنے ان کے والدین پر گولیاں برسانے کی ویڈیو پوری قوم نے دیکھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت معصوم بچوں کو انصاف دینے کیلئے پرعزم ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ مذکور کیس کی پیروی میں استغاثہ کی کمزوری اور خامیوں کی تحقیقات کی جائیں۔سانحہ ساہیوال کے حوالے سے وزرات داخلہ نے آئی جی اور چیف سیکرٹری پنجاب کو خط بھی ارسال کر دیا ہے۔خط کے متن میں درج ہے کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا اور گواہوں میں سے کسی نے شہادت نہیں دی جو کہ ایک قابل افسوس مثال ہے۔وزیر اعظم نے ساہیوال قتل و غارت گری میں ملوث چھ پولیس اہلکاروں کی بریت پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔وزیر اعظم نے فوری طور پر درج ذیل اقدامات کرنے کی خواہش کی ہے کہ فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں اور پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کو حقیقی گواہوں کے ذریعہ اپنا مقدمہ قائم کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مظلوموں کو انصاف دلائیں –
تحقیقات اور استغاثہ کی خامیوں کی تحقیقات اور ان کی نشاندہی کے لئے ایک اعلی سطح کی کمیٹی کا تقرر کریں۔کمیٹی کو ریاست کے مختلف حصوں میں موجود غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرنے والوں کی بھی شناخت کرنی چاہئے جن کے اقدامات غیر فعال ہونے سے مشتبہ افراد کو فائدہ ہوا۔اس طرح کی خامیوں کو دور کرنے اور ساہیوال کی حکمت عملی سے متاثرہ افراد کو انصاف فراہم کرنے کے لئے خصوصی تجاویز پیش کی جائیں۔ تعمیل کی ایک رپورٹ اس وزارت اور وزیر اعظم آفس کو 3 دن کے اندر پیش کی جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ ساہیوال کیس میں تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دیا تھا۔مذکورہ کیس میں صفدر حسین، احسن خان، رمضان، سیف اللہ، حسنین اور ناصر نواز کو نامزد کیا گیا تھا اور تقریباً 10 ماہ تک کیس عدالت میں چلا۔ پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے 19 جنوری کو ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب ایک گاڑی پر فائرنگ کی تھی جس میں چار افراد جاں بحق اور تین بچے زخمی ہوگئے تھے۔کار کے ڈارئیور ذیشان کے متعلق سی ٹی ڈی حکام کا کہنا تھا کہ اس کا تعلق کالعدم تنظیم سے تھا۔ سانحے پر ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا جس کے بعد حکومتی مشینری حرکت میں آئی۔وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے آپریشن کو 100 فیصد درست قرار دیا تھا لیکن ساتھ ہی محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ کو معطل کرنے کا بھی اعلان کیا۔
بہرحال وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ساہیوال سانحہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کا نوٹس لینے کے بعد واقعہ کی طے تک پہنچ کر حقیقی ملزمان کو سزا دینے کے بعد عوام میں موجود عدم تحفظ کااحساس ختم ہوجائے گا اور اس طرح کے واقعات کا تدارک کیا جاسکے گا۔ حکومت ماضی سے ہٹ کر نئی مثال قائم کرے اور ساتھ ہی دیگر سانحات کے متاثرین کو بھی انصاف سمیت مکمل تحفظ فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے تاکہ عام لوگ بااثر شخصیات کے اثر سے نکل کر اداروں اور ریاست پر مکمل اعتماد کا اظہار کریں یہی ایک فلاحی ریاست کی نشانی ہوتی ہے جہاں عام لوگوں کو انصاف کی فراہمی آسانی سے ہوسکے۔