ملک میں سیاسی دنگل سجے گا یا اس سے قبل مذاکرات کے ذریعے کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے گا،فی الحال مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے امکانات بہت ہی کم نظر آرہے ہیں چونکہ جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ سرفہرست ہے اور اب تک وہ اسی مطالبہ پر ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ حکومت نے اس حوالے سے دوٹوک جواب دیا ہے کہ دیگر مطالبات پر بات چیت ہوسکتی ہے مگر وزیراعظم کے استعفے پر کوئی بات نہیں ہوگی جس پر وزیراعظم عمران خان بھی اپنا مؤقف دے چکے ہیں کہ وہ استعفیٰ نہیں دینگے جس سے حالات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن کامارچ اسلام آباد کی طرف بڑھے گا تو ایسے میں یقینا تصادم کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔مگر یہ ملک کے وسیع ترمفاد میں نہیں ہوگا۔
اس کا نقصان ملک اور عوام دونوں کو ہوگا کیونکہ ماضی کے دھرنوں اور احتجاج کی وجہ سے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات پڑے جس کا خمیازہ عوام آج بھگت رہی ہے جبکہ ملکی حالات بھی سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ ملک میں بہتر معیشت کیلئے ساز گار ماحول انتہائی ضروری ہے جس کی ذمہ داری نہ صرف حکومت بلکہ اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔بہرحال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔گزشتہ روز حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان حکومت مخالف آزادی مارچ کے حوالے سے دو مراحل میں ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔
مذاکرات میں چند گھنٹے کے وقفے کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی ایک بار پھر اسلام آباد میں اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اکرم درانی کی رہائش گاہ پہنچی تھی تاہم فریقین کی بات چیت کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکی اور مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔مذاکرات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا کہ کافی بات چیت ہوئی لیکن فیصلہ نہیں ہو سکا،تاہم مذاکرات جاری رہیں گے۔رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے کہا کہ ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے جبکہ آئندہ مذاکرات کے لیے کوئی تاریخ بھی طے نہیں ہوئی۔قبل ازیں حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کے دوران اپوزیشن نے اپنے تمام مطالبات ان کے سامنے رکھے جس کے بعد فریقین نے قیادت سے مشورے کے لیے چند گھنٹوں کاوقفہ لیا۔ذرائع کے مطابق اپوزیشن اور حکومت کے درمیان چار نکات میں سے صرف ایک نکتے پر مذاکرات ہوئے جبکہ دیگر مطالبات پر کوئی بات نہیں ہوئی جن میں وزیر اعظم کا استعفیٰ، نئے انتخابات اور آئین میں موجود اسلامی دفعات کا تحفظ شامل ہے۔ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے ڈی چوک پر جلسے کی اجازت دینے سے معذرت کرتے ہوئے اپوزیشن کو پریڈ گراؤنڈ میں جلسے کی تجویز دی۔
تاہم اپوزیشن نے پریڈ گراؤنڈ میں جلسہ کرنے سے انکار کر دیا۔اس موقع پر حکومتی کمیٹی نے ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی اپوزیشن کے سامنے رکھا۔حکومتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے چاروں مطالبات تحریری طور پر حکومتی ٹیم کے حوالے کر دئیے ہیں اور حکومتی ٹیم نے مطالبات پر وزیر اعظم سے مشاورت کے لیے وقت مانگا ہے۔مذاکرات کے پہلے سیشن کے اختتام کے بعد حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کہا کہ دونوں طرف سے تجاویز دی گئی ہیں اور انشااللہ جلد خوشخبری دیں گے۔رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے کہا کہ حکومتی ٹیم کے ساتھ اچھی مشاورت ہوئی، کچھ تجاویز ہم نے اور کچھ حکومتی کمیٹی نے دی ہیں۔
خدا کرے کہ کوئی راستہ نکل آئے جو تجاویز دونوں فریقین کیلئے قابل قبول ہوں ان پر بات چیت کو آگے بڑھا کر اسلام آباد لاک ڈاؤن کا معاملہ رک جائے تاکہ ملک میں سیاسی دنگل میدان جنگ نہ بن جائے جو کسی طور بھی ملکی مفاد میں نہیں ہوگا کیونکہ جن چیلنجز کا سامنا سیاسی ومعاشی حوالے سے ملک کو درپیش ہیں ان سے نمٹنے کیلئے سیاسی جماعتوں کا ایک پیج پرہونا ضروری ہے کیونکہ بہتر اندرونی حالات سے ہی بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور ملکی معیشت کو بھی بہتر ڈگر پرلایا جاسکتا ہے جو ملک اور عوام کے وسیع ترمفاد میں ہوگا۔