|

وقتِ اشاعت :   October 31 – 2019

بلوچستان یونیورسٹی میں ویڈیو اسکینڈل اور ہراسمنٹ کے معاملے پرگزشتہ روز بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس،جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عبداللہ بلوچ پرمشتمل دو رکنی بینچ نے جامعہ بلوچستان اسکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کا معاملہ پورے صوبے کامعاملہ ہے، ہمارے بچے جامعہ بلوچستان میں پڑھتے ہیں،سب کی نظریں تحقیقاتی اداروں اور پارلیمانی کمیٹی پر ہیں،عدالت کسی بھی ادارے پر اثرانداز نہیں ہوگی تاہم آخری فیصلہ عدالت ہی کریگی۔غیر متعلقہ افراد کو فوری طورپر یونیورسٹی اور ہاسٹلز سے بے دخل کیاجائے۔

منگل کے روز ڈویژنل بینچ کے روبرو ہراسمنٹ سے متعلق دائر آئینی درخواست کی سماعت کے موقع پر بلوچستان اسمبلی کی تحقیقاتی کمیٹی کی چیئرپرسن ماہ جبین شیران، ممبران کمیٹی ثناء اللہ بلوچ، اسد بلوچ، شکیلہ نوید دہوار، قائم مقام وائس چانسلر انور پانیزئی اور ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان ارباب طاہر ایڈووکیٹ ودیگر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ سماعت شروع ہوئی تو ایف آئی اے کی جانب سے جامعہ بلوچستان اسکینڈل سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔سماعت کے دوران چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس جمال مندوخیل نے کمیٹی میں شامل اراکین اسمبلی،تحقیقاتی اداروں ودیگر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس سلسلے میں ایف آئی اے تحقیقاتی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ ہم بھی نگرانی کررہے ہیں،جامعہ بلوچستان کامعاملہ پورے صوبے کا معاملہ ہے۔

یہاں صوبے بھر سے طلباء وطالبات حصول علم کیلئے آتے ہیں،اسکینڈل کے باعث طالبات اور ان کے والدین پریشانی کا شکار ہیں۔ خوشی ہے کہ ارکان اسمبلی، ایف آئی اے اور حکومت نے معاملے پر بھرپور ردعمل دکھایا۔اس موقع پر پارلیمانی کمیٹی کی چیئرپرسن ماہ جبین شیران نے عدالت کو بتایاکہ یونیورسٹی اراکین نے یونیورسٹی کادورہ کیاہے بلکہ شکایات رکھنے والوں کیلئے اخبارات میں اشتہار بھی مشتہرکردئیے گئے ہیں تاہم ابھی تک کمیٹی کے سامنے کوئی بھی پیش نہیں ہواہے۔

اس موقع جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب کامقصد ایک ہے لوگ یونیورسٹی انتظامیہ کووالد کا درجہ دیکر اپنے بچوں اور بچیوں کو حصول علم کیلئے یہاں بھیجتے ہیں۔ ہم سب کو کہتے ہیں کہ وہ عدالت پر بھروسہ رکھیں احتجاج کا سلسلہ ختم ہوجاناچاہیے۔اس موقع پر کمیٹی کے رکن ثناء بلوچ نے کہاکہ ہمیں طلباء وطالبات اور ان کے والدین کے اعتماد کو بنانا ہے تاکہ وہ شکایات درج کریں،ہمارے پوچھنے پریونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بتایاگیاکہ یونیورسٹی میں 20فیصد طالبات زیر تعلیم ہیں،وائس چانسلر کے پاس 200شکایات درج کی جاچکی ہیں لیکن ان پر کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

انہوں نے عدالت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ کیمرہ آپریٹرز کو کسی قسم کی تربیت حاصل ہے نہ ہی انہیں کسی ضابطہ اخلاق سے متعلق معلومات ہیں،کمیٹی تحقیقاتی ادارہ نہیں نہ ہی یہ سزا دے سکتی ہے،انہوں نے بتایاکہ ایف آئی اے کی جانب سے کمیٹی کو تحقیقاتی رپورٹ کی حوالگی نہیں ہوسکی ہے تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ ایف آئی اے کی رپورٹ کمیٹی کو حوالے کردی جائیگی،ہمیں بہتری کی طرف جاناہے بلکہ تمام تعلیمی اداروں اور کالجز کو بھی محفوظ بناناہے۔

عدالت کسی ادارے پر بھی اثرانداز نہیں ہوگی تاہم آخری فیصلہ عدالت کا ہی ہوگا،یونیورسٹی کے اندر ادارے غیر فعال ہیں۔حکومت کی ذمہ داری کام کرناہے۔ ایف آئی اے کو اس لئے مشکل کا سامنا ہے کہ کوئی سامنے نہیں آرہا،چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ تمام غیر متعلقہ افراد کو بے دخل کیاجائے۔بینچ کے ججز نے قائم مقام وائس چانسلر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کی خود نگرانی کررہی ہے واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ تمام مطالبات پورے ہورہے ہیں،ہمارا مقصد مجرم کو پکڑنا اور یونیورسٹی کی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔

ہم ایف آئی اے کی تحقیقات یا کمیٹی پر اثر انداز نہیں ہوں گے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سینڈیکیٹ کے اگلے اجلاس میں خود شرکت کی کوشش کروں گا،ہم زمانہ طالب علمی میں یہ دیکھ چکے ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر ہاسٹل پر قبضے کی کوشش کی جاتی ہے ہم ہراسمنٹ کی اس پٹیشن کو برقراررکھیں گے چاہے دو سال کیوں نہ لگیں،ہم آخری حد تک جائیں گے،تاہم عدالت نے کمیٹی جامعہ بلوچستان،انتظامیہ ودیگر کو رپورٹ کو پبلک نہ کرنے اور ویڈیوز سمیت دیگر ثبوت چیمبر میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔بعدازاں سماعت 14 نومبر تک کیلئے ملتوی کردی گئی۔

عدالت عالیہ کی جانب سے ایک اچھا پیغام گیا ہے کہ پٹیشن کو برقرار رکھتے ہوئے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچایاجائے گاتاکہ طالبعلموں میں موجود بے چینی اور خوف کا خاتمہ ہو اور وہ اپنے تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکیں کیونکہ بلوچستان پہلے سے ہی تعلیمی لحاظ سے انتہائی پسماندہ اور ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت پیچھے ہے اور اس طرح کے حساس معاملات سامنے آنے کے بعد تعلیمی اداروں کی ساکھ متاثر تو ہوتی ہی ہے تو والدین بھی اپنے بچوں کی تعلیم کو جاری رکھنے سے کتراتے ہیں۔ بہرحال ساز گار ماحول کے ذریعے ہی تعلیم کو فروغ دیا جاسکتا ہے خاص کر خواتین کی ناخواندگی کی شرح بلوچستان میں زیادہ ہے لہٰذا یہ تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان کے بچوں کے مستقبل کیلئے اس طرح کے حساس معاملات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے بچوں کو بہترین ماحول فراہم کریں۔