|

وقتِ اشاعت :   November 1 – 2019

بلوچستان یونیورسٹی میں ویڈیو اسکینڈل کے طشت از بام ہونے سے جوسنگین صورت حال پیدا ہوئی ہے اس کے اثرات نہ صرف دارالحکومت کوئٹہ بلکہ اندرون بلوچستان تک شدت کے ساتھ محسوس کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف بلوچستان بھر کے طول وعرض میں احتجاجی جلسے و جلوس نکالے گئے اور ان میں یہ مطالبہ شدت کے ساتھ کیا گیا کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرکے انہیں عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ اس مقدس ادارے کی جس طرح ملک بھر میں بے توقیری ہوئی وہ نہ صرف بحال ہو بلکہ خوف میں مبتلا، تعلیم کی غرض سے آنے والی بچیاں خود کو محفوظ سمجھتے ہوئے اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر سکیں کیونکہ اب تک کی صورت حال انتہائی ہیجانی صورت اختیار کر گئی ہے اس کے منفی اثرات نہ صرف ان معصوم طالبات بلکہ ان کے خاندا ن کے افراد یعنی والدین پر بھی بری طرح پڑے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بلوچستان کی معصوم طالبات کو تعلیم سے دور رکھنے کی ایک گہری سازش ہے تاکہ انہیں اس طرح کے اسکینڈل کا شکار بنا کر تعلیم کے دروازے ان پر بند کیے جائیں، بلوچستان میں تعلیم کی شرح اور خصوصاً خواتین میں اس کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت کافی کم ہے۔اب خدا خدا کرکے پشین ’لورالائی ’ضلع نوشکی’چاغی اور خصوصاً مکران ڈویژن کی بچیاں اور بچے تعلیمی میدان میں اپنا نام پیدا کررہے ہیں وہ مقابلے کی تعلیم میں بھی پیش پیش ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی یہ کرم نوازی ہے کہ مکران کے نوجوان یار جان عبدالصمد نے خلائی سفر کرکے نہ صرف ملک بلکہ اپنے صوبہ بلوچستان کا نام روشن کر کے یہ ثابت کردیا کہ اس سرزمین کی مٹی میں جو نمی ہے اس کی زرخیزی سے ایسے سپوت بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے میں بلوچستان یونیورسٹی ویڈیو اسکینڈل کے سامنے آنے سے لوگوں میں غم و غصے کی جو لہر دوڑ گئی وہ اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا،کوئی ایک سیاسی جماعت یا طلباء تنظیموں نے اس پر اپنی احتجاجی تحریک ختم نہیں کی بلکہ تواتر کے ساتھ یہ مطالبہ دہرایا جارہا ہے کہ یونیورسٹی اسکینڈل میں سابق وائس چانسلر کو گرفتار کیا جائے۔

یہ مطالبہ گزشتہ روز کے اخبار میں وکلاء تنظیموں کے جاری کردہ بیان میں کیا گیا اور یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ اس اسکینڈل میں ملوث تمام افراد کے خلاف کارروائی کی جائے اور تحقیقاتی ادارے اسکینڈل میں ملوث کسی بھی شخص کو بچانے کی کوشش نہ کریں انہوں نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل بنچ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کی توقعات اب صرف اور صرف بلوچستان ہائی کورٹ سے وابستہ ہیں کہ وہ اس اسکینڈل میں ملوث بد کردار افراد کونہ صرف عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے گی بلکہ انہیں نشان عبرت بھی بنائے گی۔

گزشتہ دنوں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس اسکینڈل کی کارروائی کے دوران یہ ریمارکس دئیے کہ اگر کوئی یونیورسٹی میں ہراسگی کے معاملے میں ملوث ہے تو صرف معطلی کا کیا فائدہ؟اس کے خلاف کارروائی ہونی چائیے انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے کے بچے اور بچیاں پریشانی کا شکار ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ارکان اسمبلی اور حکومت نے معاملے پر بھر پور رد عمل دکھایا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت اس معاملے کی خود نگرانی کررہی ہے جو بھی واقعہ میں ملوث ہوا، ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ 200کے قریب شکایات وائس چانسلر آفس کو موصول ہوئیں جن پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا مقصد مجرم کی پکڑ اور بلوچستان یونیورسٹی کی ساکھ کوبحال کرنا ہے۔ جسٹس عبداللہ نے قائم مقام وائس چانسلر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس مکمل اختیار ات ہیں کہ ایکٹ کے مطابق کارروائی کریں، اگر آپ ایکشن نہیں لے سکتے تو وائس چانسلر کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔

اس موقع پر وائس چیئرمین ہیومن رائٹس نے بنچ کو بتایا کہ ان کی جانب سے ستمبر میں تحقیقات کی گئیں تھیں جس کی رپورٹ مرتب کی جا چکی ہے لیکن اسے ابھی تک شائع نہیں کیا گیا، ہم یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء سے ملے اور جمنازیم میں بھی فورسز کو رہائش پذیر پایا۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دئیے کہ جمنازیم اور یونیورسٹی کو رویڈور سے فورسز کو فوری طورپر نکالا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ہراسمنٹ کی اس پٹیشن کو بر قرار رکھیں گے، چاہے دو سال کیوں نہ لگیں، ہم آخری حد تک جائیں گے۔

ارکان اسمبلی پر مشتمل کمیٹی نے بنچ کو بتایا کہ ڈراپ آؤٹ کی دھمکی کے ذریعے بھی طالبات کی ہراسمنٹ ہوئی ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی محترمہ شکیلہ دہوار نے بنچ کو بتایا کہ ویڈیوز بنانے کی ان کے پاس ثبوت ہیں اور وہ اسے پیش کر سکتی ہیں تاہم عدالت نے کمیٹی،جامعہ بلوچستان انتظامیہ و دیگر کورپورٹ کو پبلک نہ کرنے اور ویڈیوز سمیت دیگر ثبوت چیمبر میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی انسانی حقوق کا اجلاس سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں بلوچستان یونیورسٹی ہراسمنٹ معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

چئیرمین سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ جامعہ بلوچستان سے متعلق سوشل میڈیا اور میڈیا پر خبریں دیکھ کر بڑی شرمندگی ہوئی،ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اس طرح کے شرمناک واقعات تشویشناک اور باعث مذمت ہیں۔ قائمقام وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر انور پانیزئی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے آگاہ کیاکہ یونیورسٹی میں 92کیمرے سرویلین مقاصد کے تحت لگائے گئے تھے،چار کیمرے یونیورسٹی انتظامیہ کی منظوری کے بغیر بھی لگے ہوئے تھے، دو کی مزید رپورٹ ملی ہے یہ سب مشکوک جگہوں پر تھے دروازے کے پیچھے اور سیڑھیوں کے ساتھ لگائے گئے تھے۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہاکہ سابق وائس چانسلر کے بارے میں بھی شکایات سامنے آرہی ہیں، فی میل اساتذہ ٹیم کی مدد سے طالبات کو باربار فیل کیا جاتا رہا ہے،ان طالبات کو کافی عرصہ سے تنگ کیا جارہا تھا ایک نیٹ ورک بنایا گیا ہے جو غلط کام کرتا ہے۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ سب سے پہلے سابق وائس چانسلر کی تفتیش ہونی چائیے اگر یونیورسٹی میں طلباء تنظیمیں فعال ہوتیں تو نوبت یہاں نہ پہنچتی۔ بلوچستان یونیورسٹی کی طالبات نے کمیٹی کو بتایا کہ اس صورت حال سے بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم شدید متاثر ہونے کااندیشہ ہے والدین بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کی اجازت نہیں دیں گے اور اس واقعہ کے بعد بڑی تعداد میں طالبات یونیورسٹی چھوڑنے پر مجبور ہیں ہمیں خوف میں رکھا جاتا ہے،بلوچستان یونیورٹی چھاؤنی بن چکی ہے۔

ان طالبات نے یہ بھی بتایا کہ سردار بہادر خان یونیورسٹی میں ایک طالبہ سے زبردستی غلط کام کرانے کی کوشش کی گئی اس نے آواز آٹھائی تو اسے فارغ کردیا گیا اور آج تک اس کا پتہ نہیں چلا،کمیٹی سے سفارش کی گئی کہ بلیک ملینگ کے مرتکب تمام افراد کو برطرف کرکے سخت سزا دی جائے،وائس چانسلر کو عارضی بنیادوں پر ہٹانے کے بجائے مستقل طورپر ہٹا یا جائے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں سیکورٹی کیمروں اور مسلح گارڈز کو انٹری گیٹس تک محدود کیاجائے، طلباء یونینز کو بحال کرکے طلباء و طالبات کی آزادی بحال کی جائے۔چئیرمین کمیٹی مصطفیٰ نواز کھوکھر نے بلوچستان یونیورسٹی کی جرات مند طالبات کو کمیٹی کو تفصیلات فراہم کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کا آئندہ اجلاس بلوچستان یونیورسٹی میں منعقد کیا جائے۔

کمیٹی قائمقام وائس چانسلر کو ہدایت کرتی ہے کہ وہ آئی جی ایف سی اور آئی جی پولیس کے ساتھ میٹنگ کریں اور یونیورسٹی میں فورسز کو داخلی اور خارجی مقامات تک محدود کیاجائے۔ یہ تمام رپورٹس بلوچستان ہائی کورٹ اور سینٹ کمیٹی کی تھیں۔ ایک ٹیچر نے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے تمام معاملات میں اساتذہ ’طلباء کو ہمیشہ بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے چند مخصوص گندی ذہنیت رکھنے والے بد کرداروں کو ہی اہمیت دی،یہی وجہ ہے کہ سینڈیکیٹ اور ورک اکیڈمک کونسل کے انتخابات میں آٹھ مرتبہ مداخلت کرکے انہیں روکا گیا تاکہ ان کے منظور نظر افراد کے ذریعے یونیورسٹی کے معاملات چلائے جائیں۔

اساتذہ کے خلاف انتقامی کارروائی کے تحت ان کی ترقیاں روکی گئیں۔ بلوچستان یونیورسٹی میں خواتین اساتذہ کی کنٹریکٹ تقرریوں پر زیادہ توجہ دی گئی جس میں انہیں مختلف طریقوں سے بلیک میل کیا جاتا رہا۔ یہ صورت حال انتہائی خوفناک ہے دیکھتے ہیں کہ ہمارے تحقیقاتی ادارے اس سلسلے میں کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ بہر حال بلوچستان بھرکے لوگوں خصوصاً والدین کی نظریں بلوچستان ہائی کورٹ پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ اپنی تحقیقات کی روشنی میں ان بد کردار اہلکاروں کو کس طرح انجام تک پہنچاتے ہوئے ادارے کی ساکھ کو دوبارہ بحال کرے گی۔