|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2019

پاکستان میں سکھوں کے 2 مقدس ترین مقامات ہیں، پہلا جنم استھان ننکانہ صاحب،جہاں سکھ مذہب کے بانی باباگرونانک دیو جی کی پیدائش ہوئی اور دوسرا گوردوارہ دربار صاحب کرتاپور، جہاں باباگرونانک نے اپنی عمر کے آخری 18سال گزارے اور یہیں وفات پائی، یہاں ایک جانب ان کی سمادھی اور دوسری جانب قبر بنائی گئی ہے۔گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور سکھ مت کے ماننے والوں کا دوسرامقدس ترین مقام لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر اورپاک بھارت سرحد سے صرف 4کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے،گوردوارہ دربار صاحب کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ سکھ مت کے بانی باباگرونانک دیو جی نے اپنی عمر کے آخری 18سال گاؤں کوٹھے پنڈ میں گزارے اور 22 ستمبر 1539ء کو یہیں وفات پائے، یہاں ایک جانب ان کی سمادھی اور دوسری جانب قبربنائی گئی ہے۔

گوردوارہ دربار صاحب کی قدیم عمارت دریائے راوی کے سیلاب میں تباہ ہو گئی تھی، موجودہ عمارت 1920 ء سے 1929 ء کے درمیان پٹیالہ کے مہاراجا سردار بھوپندر سنگھ نے تعمیر کرائی، 1995ء میں حکومت پاکستان نے اس کی دوبارہ مرمت کی، جولائی 2004ء میں یہ گوردوارہ مکمل طور پر بحال کر دیا گیا،گوردوارے کے باغیچے میں باباگرونانک کے زیرِاستعمال رہنے والا کنواں بھی ہے جسے سکھ عقیدت میں “سری کْھوہ صاحب”کہتے ہیں۔

تقسیم ہند کے وقت یہ گوردوارہ پاکستان کے حصے میں آگیا، تقریباً 56 سال تک سکھ زائرین اس کی زیارت کے منتظر رہے، انہوں نے بھارتی سرحدپر دور درشن استھان بنا رکھے تھے جہاں سے وہ دوربین کی مدد سے اس کا دیدار کیا کرتے تھے، سکھ برادری کئی دہائیوں تک راہداری کی تعمیرکا مطالبہ کرتی رہی، دونوں ملکوں کی پچھلی حکومتوں نے 1998ء، 2004ء اور 2008ء میں راہداری کی تعمیر کیلئے ابتدائی بات چیت بھی کی لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔

وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری میں بھارتی کرکٹر سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو سے اس سلسلے میں بات چیت ہوئی جس میں اس منصوبے کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کیا گیاجسے وزیراعظم عمران خان نے وعدہ وفا کرتے ہوئے پورا کیا۔گزشتہ روز کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مجھے کرتارپور کی اہمیت کا اندازہ نہیں تھا، مجھے سال پہلے پتا چلا اس کی اہمیت کیا ہے، یہ ایسے ہے جیسے ہم مدینہ کو چار پانچ کلو میٹر سے دیکھ سکیں لیکن وہاں جا نہ سکیں، اس پر مسلمانوں کو کتنی تکلیف ہو گی، یہ دنیا کی سکھ برادری کا مدینہ ہے جہاں آج اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لیڈر نفرتیں نہیں پھیلاتے اور جو نفرت پھیلاکر ووٹ لیتا ہے وہ لیڈر نہیں ہوتا، ہم ہمسایوں کی طرح بات چیت کر کے اپنا مسئلہ حل کر سکتے ہیں، جب منموہن سنگھ وزیراعظم تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہم کشمیر کا مسئلہ حل کر لیں تو پورا برصغیر اٹھ سکتا ہے۔عمران خان کا کہنا تھا میں نے یہی بات مودی کو کہی تھی کہ ہم یہ مسئلہ کیوں حل نہیں کرتے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج جو کشمیر میں ہو رہا ہے، یہ زمینی مسئلے سے اوپر نکل گیا ہے اور یہ انسانی حقوق کا مسئلہ بن گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ 80 لاکھ لوگوں کے سارے انسانی حقوق ختم کرکے انہیں 9 لاکھ فوج کے ذریعے بند کیا گیا ہے، یہ انسانیت کا مسئلہ ہے، جو حق اقوام متحدہ نے انہیں دیا، وہ چھین لیا گیا، اس طرح کبھی امن نہیں ہو گا، اس وجہ سے سارے تعلقات رکے ہوئے ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مودی اگر میری بات سن رہے ہیں تو سنیں انصاف سے امن ہوتا ہے نا انصافی سے انتشار پھیلتا ہے، مودی کشمیر کے لوگوں کو انصاف دیں اور برصغیر کو اس مسئلے سے آزاد کر دیں تاکہ ہم انسانوں کی طرح رہ سکیں۔ان کا کہنا تھا سوچیں بارڈر کھلے گا اور تجارت ہو گی تو کتنی خوشحالی آئے گی، ہم کیسے لوگوں کو غربت سے نکال سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دیکھ رہا ہوں کہ 70 سال سے اس مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے نفرتیں ہیں لیکن جب مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا تو انشاء اللہ برصغیر میں بھی خوشحالی آئے گی اور خطہ اٹھ جائے گا، انشاء اللہ وہ دن دور نہیں ہے۔

کرتارپور راہداری سے صرف سکھ کمیونٹی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مثبت پیغام پاکستان کی جانب سے گیا ہے کہ پاکستان مذہبی رواداری پر یقین رکھنے والا ملک ہے جو خطے میں بھائی چارگی اور امن کو فروغ دینے کیلئے کوشاں ہے اس عمل سے پاکستان نے بھارت پر اخلاقی برتری حاصل کرلی ہے کیونکہ یہ سب پر عیاں ہے کہ کس طرح سے بھارت میں انتہاء پسند حکومت اقلیتوں کے حقوق غصب کرکے ظلم ڈھارہی ہے جس کا سیکولر ازم کا نام نہاد مکروہ چہرہ سب کے سامنے ہے البتہ پاکستان کی اس بہترین کوشش اور اقدام کو ہر سطح پر سراہاجارہا ہے جبکہ بھارت کو شرمندگی کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔