|

وقتِ اشاعت :   November 18 – 2019

لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کو غیر مشروط طور پر 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک علاج کے لیے جانے کی اجازت دیتے ہوئے نام ای سی ایل سے نکالنے کے احکامات دئیے۔جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام غیرمشروط طور پر ای سی ایل سے نکالنے کی شہباز شریف کی درخواست پر سماعت کی جس میں وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

اس سے قبل وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے ڈرافٹ میں کہا تھا کہ نواز شریف بیرون ملک علاج کے لیے جاسکتے ہیں لیکن اگر آٹھ ہفتوں کی معیاد ختم ہوگئی تو دوبارہ اجازت دینے کا معاملہ حکومت ہی دیکھے گی۔عدالت کی جانب سے تیار کردہ ڈرافٹ کی کاپی وفاقی وکیل اور شہباز شریف کے وکلاء کو فراہم کردی گئی جس کے بعد وفاقی وکیل نے ڈرافٹ کا جائزہ لیا۔

سرکاری وکیل نے عدالتی ڈرافٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی ڈرا فٹ میں کسی قسم کی ضمانت نہیں مانگی گئی۔عدالتی ڈرافٹ کے متن کے مطابق عدالت نے نئے بیان حلفی میں نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے 4 ہفتے کا وقت دیا ہے اور اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہیں ہوتی تو اس مدت میں توسیع ہوسکتی ہے جبکہ حکومتی نمائندہ سفارتخانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کرسکے گا۔

عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے عدالتی ڈرافٹ پڑھا ہے؟ آپ کو ڈرافٹ پر کون کون سے تحفظات ہیں؟ جس پر سرکاری وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہمیں ڈرافٹ پر کچھ تحفظات ہیں۔سرکاری وکیل نے کہا کہ بیان حلفی پر عمل نہیں ہوتا تو کیا ہو گا؟عدالت نے کہا کہ پھر توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار موجود ہے۔عدالتی فیصلے کے بعد شہباز شریف نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ عدالت نے انسانی بنیادوں پر نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔

نواز شریف کی صحت بہتر نہ ہونے پر مدت میں توسیع کی درخواست بھی دے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو فوری علاج کی ضرورت ہے، وہ علاج کے بعد فوری طور پر پاکستان واپس آئیں گے۔بہرحال نواز شریف کی صحت کے حوالے سے سیاست کرنے کی باتیں کی جارہی تھیں دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر سیاست کرنے کا الزام لگایاجارہا تھا۔ حکومت کی جانب سے یہ کہاجارہا تھا کہ مسلم لیگ ن کے رہنماء میاں محمد نواز شریف کی زندگی کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے بلکہ جائیداد بچانے میں لگے ہوئے ہیں اس لئے معاملے کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے نواز شریف کی صحت پر سیاست کررہے ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنماء حکومت پر الزام لگاتے رہے کہ جان بوجھ کر ای سی ایل سے نام ہٹانے کیلئے شرائط رکھے گئے جو کہ حکومتی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس تمام صورتحال کے بعد بالآخر لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو غیر مشروط طور پر چار ہفتوں کیلئے بیرون ملک علاج کرانے کے لیے جانے کی اجازت دی اور نام ای سی ایل سے نکال دیا۔


یہ ایک بہترین عدالتی فیصلہ ہے جسے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو سراہنا چاہئے کیونکہ یہ انسانی بنیادوں پر کیا گیا فیصلہ ہے جبکہ حلفی بیان میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف دوبارہ وطن واپس آکر کیسز کا سامنا کرینگے،اگر بیان حلفی پر عمل نہیں کیا گیا تو توہین عدالت کا سامنا انہیں کرنا پڑے گا مگر ساتھ ہی مسلم لیگ ن کو بہت بڑا سیاسی نقصان بھی پہنچے گا جس سے نہ صرف عدلیہ کا اعتبار اٹھ جائے گا بلکہ عوام کا بھی بھروسہ ختم ہوجائے گا مگر ماضی میں جس طرح کلثوم نواز شدید علیل تھیں تو اس دوران بھی یہی چہ میگوئیاں کی جارہی تھیں بلکہ بعض حلقوں نے اس معاملے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ کلثوم نواز دنیا سے رخصت ہوگئیں اور جنہوں نے ان کی صحت کے حوالے سے منفی پروپیگنڈہ کیا تھا،بعد میں پشیمانی کا اظہار کیا۔

لہٰذا پھر اس طرح نہ سوچاجائے بلکہ مثبت سوچ اپناتے ہوئے فی الوقت اس معاملے پر بیان بازی اور غلط تجزیہ کاری سے گریز کیاجائے اور ماحول کو سازگار بناتے ہوئے ملک کے دیگر اہم سنجیدہ معاملات پرتوانائیاں صرف کی جائیں تاکہ ملک کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان سے نکلا جاسکے اور عوام کے مسائل حل کرنے پر بھر پور توجہ دی جاسکے۔