|

وقتِ اشاعت :   November 24 – 2019

تربت : برطرف ٹیچرزایکشن کمیٹی کی ڈپٹہ فوکل پرسن شگفتہ بلوچ،رشیدبلوچ اور صفیہ بلوچ نے کہاہے کہ برطرف 114ٹیچرز کی انکوائری رپورٹ ذاتی ضد، انا اور بدنیتی پرمبنی ہے جس میں صرف59ٹیچرز کی بحالی کی سفارش کی گئی ہے جبکہ 51ٹیچرز کے خلاف من گھڑت رپورٹ تیارکی گئی ہے اور4کو بیرون ملک ظاہرکیاگیاہے۔

، ان خیالات کااظہار انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہاکہ 114اساتذہ کی برطرفی کے بعدجب ہم نے احتجاجی تحریک شروع کی تو اس دوران وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے ملاقات کے دوران انہوں نے ڈپٹی کمشنر کیچ کو انکوائری کاحکم دیاتھا جس پر ڈی سی کیچ کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر تربت خرم خالد کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی قائم ہوئی جس کے سامنے برطرف ٹیچرز نے اپنی درخواستیں اور ثبوت پیش کئے۔

اسسٹنٹ کمشنرتربت کاکہنا تھاکہ 114میں سے 110ٹیچرز پیش ہوئے ہیں جبکہ4بیرون ملک ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہوئے ہیں مگر اس رپورٹ کو چھپایا گیاہے اور اس کی جگہ پر ایک اور رپورٹ حکام بالا کو بھیجی جارہی ہے جس میں 110کے بجائے صرف59کی بحالی کی سفارش کی گئی ہے اور اس من گھڑت انکوائری رپورٹ میں یہ ظاہرکیاگیاہے کہ 51ٹیچرزنے کمیٹی کے سامنے اپنے ثبوت پیش نہیں کئے ہیں جو غلط وبے بنیادہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم اپنی بحالی کیلئے احتجاج پر ہیں سڑکوں اور چوکوں پر احتجاج کرتے رہے ہیں توکیونکر ہم کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوتے، ہم کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے ہیں مگر ان51ٹیچرز میں زیادہ تروہ ہیں جو ان احتجاجوں میں ہمارے ساتھ رہے ہیں احتجاج کی پاداش میں بدنیتی اورضدکی بنیادپر سابق ڈی ای او اور ڈی ڈی اوفیمیل اور اے ڈی او ایجوکیشن تربت نے ڈی سی کیچ کو غلط بیانی کے ذریعے گمراہ کرکے من گھڑت رپورٹ تیارکروائی ہے اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ اسسٹنٹ کمشنرتربت کی انکوائری رپورٹ کو حکام بالا کوبھجوایاجائے جس نے اس پورے ایشوکی غیرجانبدارانہ انکوائری کرائی تھی۔

انہوں نے کہاکہ سابق ڈی ای او کیچ کو برطرف اساتذہ کے بچوں کی بددعاؤں کی بدولت ہائی کورٹ کے حکم پر ڈی گریڈکیاگیاہے مگر وہ اب بھی اپنی بدنیتی اور منفی ہتھکنڈوں سے بازنہیں آتے ہم کہتے ہیں کہ وہ بلاوجہ کسی غریب کی روزی اوران کے بچوں کانوالہ چھیننے کی سازش نہ کریں وگرنہ غریب کی آہ عرش معلی تک جاتی ہے اورجب وہاں سے پکڑ آجائے تو کوئی بچابھی نہیں سکتا، اس لئے ہمارے بچوں کی روٹی کے پیچھے پڑنے کے بجائے اب جاکر اپنے اسکول میں درس وتدریس کریں۔

جن کے سفارشی ایم این اے، ایم پی اے یا افسران تھے ان کی بحالی کیلئے تو سفارشیں ہورہی ہیں،ہمارا نہ تو کوئی ایم پی اے ہے نہ ایم این اے اورتعلیمی افسران تو ہمارے دشمن بنے پھرتے ہیں یہ 4مہینے ہم نے کس بدحالی اورپریشانی میں گزارے ہیں یہ ہم ہی جانتے ہیں اورہمارے بچے جانتے ہیں مگرہمیں صبرہے ہمارا سہارا اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، سابق کمشنر مکران ڈویژن کیپٹن طارق زہری مرحوم کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام اوربلنددرجات عطاء فرمائے جوہم غریبوں کی بحالی کے حق میں تھے۔

ہم وزیراعلیٰ بلوچستان، چیف سیکرٹری بلوچستان، سیکرٹری تعلیم بلوچستان اور کمشنرمکران ڈویژن سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ذاتی بغض وعناد پرمبنی کرپٹ تعلیم افسرکی خواہش پرمرتب کی گئی انکوائری رپورٹ کومستردکرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنرتربت کے اصل انکوائری رپورٹ کے مطابق اقدام اٹھائیں اور110اساتذہ کی بحالی کے حکم صادرفرمائیں انہوں نے وفاقی وزیر زبیدہ جلال، صوبائی وزیر ظہوربلیدی، مشیرفشریز حاجی اکبر آسکانی،ایم پی اے لالہ رشیددشتی، ایم پی اے مہ جبین شیران، کوآرڈی نیٹر برائے وزیراعلیٰ میر عبدالرؤف رند ودیگر نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ ہماری بحالی کے لئے سنجیدہ کوششیں کریں۔

کیونکہ ہم نے اس سے قبل بحالی کی یقین دہانی پر احتجاج موخر کی تھی اگر ہمیں بحال نہ کیاگیا تو ہمارے پاس احتجاج اورسڑکوں پر بیٹھنے کے سواکوئی چارہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اس ظلم پر مبنی کارروائی کے نتیجے میں آج سینکڑوں خاندانوں کے ہزاروں افراد نان شبینہ کے محتاج ہو گئے ہیں،بچوں نے تعلیم ادھورا چھوڑ دیاہے اور یہ ٹیچرزکے ساتھ بد ترین تذلیل اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اگر ہمیں ہمارے حق سے محروم کرنے کا گھناؤنا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا تو احتجاج جاری رکھیں گے۔

اگرچیف سیکرٹری اوروزیراعلی بلوچستان انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہے تو پھردسمبرکو ہائی کورٹ بلوچستان میں پٹیشن داخل کریں گے اور اپنے حقوق کی اس جنگ میں سیاسی و سماجی اورانسانی حقوق کی تنظیموں ہمیں انصاف فراہم کرنے کیلئے اپنا اخلاقی کرداراداکریں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ بلا جواز بر طرف اساتذہ کو اسسٹنٹ کمشنرتربت خرم خالدکی انکوائری رپورٹ اورسابق کمشنر مکران شہید محمدطارق زہری کی سفارش پر بحال کئے جائیں،اورمس گائیڈ کرنے اور انسانی حقوق کی اس بڑی پامالی پر مرتکب افسران کیخلاف تادیبی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ کوئی محکمہ تعلیم اساتذہ کی مقدس پیشہ کو بدنامی کاسبب نہ بنے۔