|

وقتِ اشاعت :   November 25 – 2019

سی پیک منصوبہ پر امریکی بیان نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جہاں ایک طرف امریکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا دکھائی دیتا ہے، وہیں پاکستان کو ہمدردانہ طور پر سی پیک سے دوررہنے کا بھی مشورہ دے ڈالا ہے۔ اس بیان سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ سی پیک سے امریکہ خوش نہیں ہے کیونکہ ہر ذی شعور شخص یہ بات جانتا ہے کہ خطے میں تھانیداری کی جنگ چل رہی ہے اور کوئی سپر پاور دوسرے بڑے ملک کو معاشی یا دفاعی حوالے سے طاقتور دیکھنا نہیں چاہتا۔ البتہ سی پیک کو فی الحال ایک معاشی اسٹریٹیجی کے طور پر دیکھا جارہا ہے مگر امریکہ نے اس کی دفاعی اسٹرٹیجی کی طرف اشارہ دیا ہے جس سے وہ خطے میں چینی معاشی سرگرمیوں کو مزید آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتااورپاکستان چین تعلقات کو معاشی حوالے سے مستحکم ہونے پر بھی نالاں دکھائی دے رہا ہے۔ مگر تعجب کی بات ہے کہ امریکہ خود ایک سپر پاور کے طور پر پاکستان میں کونسی بڑی سرمایہ کاری کی ہے جس کی ایک بہترین مثال دی جاسکے البتہ یہ ضرور ہے کہ امریکہ کو جب بھی جنگی حالات میں پاکستان کی ضرورت پیش آئی تو پاکستان کو فرنٹ لائن کا اتحادی قرار دے دیا۔

افغانستان اس کا جیتاجاگتا ثبو ت ہے کہ کس طرح سے پاکستان کو فرنٹ لائن کا اتحادی بناکر بعد میں سائیڈ لائن کیا گیا بلکہ ساتھ ہی پاکستان پر دہشت گردی کے حوالے سے الزامات بھی لگائے گئے اور پاکستان کے بہترین عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ امریکہ اپنے مفادات کیلئے کسی بھی ملک کا استعمال کرکے بعد میں اسے تباہی کے دہانے پر پہنچادیتا ہے، عراق، شام، افغانستان میں امریکہ کی دوغلی پالیسیاں سب کے سامنے ہیں اور اب سی پیک کے متعلق بیان بھی ایک بھیانک نقشہ کھینچ رہا ہے جو امریکہ کی دفاعی اسٹرٹیجی کو واضح کررہا ہے کہ مستقبل قریب میں وہ خطے میں اپنے اثرورسوخ کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ خطے سے جڑے ممالک کو زیر دست لانا چاہتا ہے تاکہ وہ پورے ریجن پر قابض ہوسکے۔دو سپر پاور ممالک کے درمیان پاکستان سمیت دیگر پڑوسی پس جائینگے لہٰذا موجودہ حکومت مستقبل کے حالات کے پیش نظر دفاعی پالیسی پر زیادہ توجہ دے تاکہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کیاجاسکے۔ گزشتہ روزامریکہ نے پاکستان کو خبردار کیا کہ اگر چین نے انفراسٹرکچر کا اپنا بڑا منصوبہ جاری رکھا تو اسے طویل المیعاد اقتصادی نقصان ہوگا جس میں فائدہ بہت کم ملے گا جبکہ چین نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ سی پیک پر کرپشن الزامات لگانے سے احتیاط کرے، منصوبے پر عملدرآمد کرانے میں ہم ایک ہیں، وزیراعظم عمران خان کہہ چکے ہیں۔سی پیک پاکستان کی اولین ترجیح ہے جبکہ چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ امریکہ سے تجارتی معاہدوں کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اس خواہش کو بزدلی نہ سمجھا جائے۔ جنوبی ایشیاء کے لئے اعلیٰ امریکی سفارت کار نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری جسے ایشیاء کے دونوں ممالک گیم چینجر منصوبہ قرار دیتے ہیں، صرف بیجنگ کو فائدہ دے گا، امریکہ نے ایک بہتر ماڈل کی پیشکش کی ہے۔ساؤتھ ایشیاء کے لئے قائمقام اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ یہ واضح ہے یا اسے واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ سی پیک کا مطلب امداد نہیں ہے، اربوں ڈالرز کے منصوبے میں غیر روایتی قرضے دیئے جارہے ہیں جس میں چینی کمپنیاں اپنے ہی مزدور اور سامان بھیج رہی ہیں۔


ویلز نے ووڈرو ویلسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک ابتدائی طور پر چینی مزدوروں اور سپلائیز پر انحصار کرتی ہے باوجود اس کے کہ پاکستان میں بے روز گاری بڑھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ راہداری پاکستانی معیشت کو بہت بڑا نقصان پہنچانے والی ہے بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب بہت زیادہ ادائیگیاں اگلے چار تا چھ برسوں میں شروع ہو جائینگی۔ دوسری جانب چینی سفیر یاؤ جنگ نے اسلا م آباد میں پانچویں سی پیک میڈیا فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا سی پیک میں اہم کردار ہے، اس منصوبے کے تحت چین کے پاور پلانٹ کم ترین ریٹ پر بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک پرعملدرآمد کرانے میں ہم ایک ہیں، وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سی پیک پاکستان حکومت کی اولین ترجیح ہے۔چینی سفیر کا کہنا تھا کہ امریکا سپر پاور ہے، دنیا میں امن و استحکام امریکا کی ذمہ داری ہے، امریکا کی ڈپٹی اسٹیٹ سیکرٹری نے سی پیک پر بات کی لہٰذا امریکا سی پیک پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے احتیاط کرے۔

واضح رہے کہ امریکی خارجہ امور کی نائب سیکرٹری ایلس ویلز نے الزام لگایا ہے کہ سی پیک اتھارٹی کو کرپشن سے متعلق تحقیقات میں استثنیٰ ہے۔ جبکہ چین میں امریکی اہلکاروں اور غیر ملکی مہمانوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ امریکا سے تجارتی معاہدوں کی خواہش رکھتے ہیں لیکن اس خواہش کو بزدلی نہ سمجھا جائے۔ امریکہ کے ساتھ تجارتی معاہدے کے خواہش مند ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ چین امریکا سے خوف زدہ ہے۔ جنگی صورت حال برقرار رہی تو جوابی اقدامات بھی کریں گے۔چینی صدر نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ باہمی احترام اور برابری کی بنیادوں پر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ امریکا اور چین کے درمیان معاشی جنگ سے خطے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، خطے میں قیام امن کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں اور کسی بھی تنازع میں پڑنے کے بجائے دوطرفہ تجارتی تعلقات کی بحالی کے لیے سرگرم ہیں اور پْر امید بھی۔چین اور امریکہ آنے والے وقت میں مدِ مقابل دکھائی دے رہے ہیں اب تک معاشی حوالے سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے مگر لگتا ہے امریکہ دفاعی اسٹرٹیجی پر غور کررہا ہے اس لئے یہ بیان دیا گیا ہے کیونکہ امریکی پالیسیاں پہلے سے طے شدہ ہوتی ہیں وقت آنے پر انہیں بیانات سے ظاہر کیا جاتا ہے اور پھر عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔مگر یہ معاملہ دوسپر پاور ممالک کا ہے اس لئے زیادہ خطرناک حالات بننے کا خدشہ ہے کیونکہ چین کمزور ملک نہیں لہٰذا وہ بھی طاقت کا جواب طاقت سے دے گامگر اس پورے عمل میں چھوٹے ممالک لپیٹ میں آئینگے۔خدا خیر کرے یہ خطہ پہلے سے ہی شدیدجنگی حالات سے متاثر ہے مزید کشیدہ ماحول کا متحمل نہیں ہوسکتا۔