|

وقتِ اشاعت :   November 25 – 2019

خضدار: ساجدی قبیلے کا ایک اہم جرگہ جھالاوان کے صدر مقام خضدار میں سردار حیات خان ساجدی کی سربراہی میں منعقد ہوا۔

جس میں ساجدی قبیلے کے سرکردہ رہنماء سرکردہ رہنما میر عتیق الرحمان ساجدی، حاجی اکرم ساجدی، سردار ذادہ میر محبوب علی ساجدی۔ سردار زادہ میر سفر خان ساجدی۔ میر عظیم ساجدی۔ ڈاکٹر لیاقت ساجدی۔ میر غلام حسین ساجدی۔ میر طارق ساجدی۔ میر داد رحمان ساجدی۔ محروف ٹرانسپورٹراقبال ساجدی۔میر محمد علی ساجدی۔ میر عبدالغفور ساجدی۔ ڈاکٹر کریم بخش ساجدی۔میر اللہ بخش ساجدی۔ میر عبدالغنی ساجدی۔ میر بالاچ ساجدی۔ میر غلام حسین ساجدی۔ میر سفر خان ساجدی سمیت مختلف اضلاع و دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین، میر و معتبرین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

جرگہ کے بعدساجدی قبیلے کے سربراہ سردار حیات خان ساجدی نے قبیلے کے معتبرین کے ہمرا خضدار پریس کلب میں پرُہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قوم ساجدی قبیلہ ایک تاریخ رکھتی ہے یہ ایک متحد ہ اور پرامن قبیلہ ہے تاہم گزشتہ چند سالوں کے دوران ساجدی قوم کے پر امن معتبرین عام افراد کو تسلسل کے ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہے، گریشہ میں آج سے چند ماہ قبل سردار محمد حیات خان ساجدی کے چھوٹے بھائی سردارزادہ میر عبدالحفیظ ساجدی کوفائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔اسی طرح شہید میر عطا اللہ ساجدی،شہید میر تاج محمد ساجدی۔ میردادرحمان ساجدی کے گھر پرحملہ اور اہلیہ کو شہید کردیا گیا۔

ضلع واشک میں میر علی محمد ساجدی کو بھی شہید کردیا گیا۔علاواہ اذیں حال ہی میں ضلع گوادرمیں شہید آصف ساجدی کا مبینہ طور پر تحصیلدار کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کیا گیا ساجدی قوم کے اوپر ہونے والے ظلم جبر اور ناانصافیوں کا ایک طویل تسلسل اور ایک طویل داستان ہے۔لہذا اقوام ساجدی کا آج منعقد ہونے والا جرگہ شہدائے گریشہ و دیگر اضلاع وعلاقوں میں ساجدی قوم کے شہداء کے قتل کی بھرپور مذمت کرتا ہے اور یہ جرگہ شہید آصف ساجدی کے قتل کے سرغنہ تحصیلدار پسنی نور خان کو احتساب کے عمل سے گزار کر کڑی سے کڑی سزا دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔

ساجدی قوم سے تعلق رکھنے والے افراد محب الوطن ریاست پاکستان کے پرامن شہری ہیں قوم کے تمام لوگ جرگہ کی صورت آج متحد ہوکرریاست پاکستان کے تمام ادارواں اعلیٰ عدلیہ اور حکومت بلوچستان سے شہید آصف کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتاہے۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معتبرین کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ سے مخاطب ہونے کا مقصد ہمارے قبیلے کے بے گناہ فرد محمد آصف ساجدی کی شہادت کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے۔

ڈھائی ماہ قبل تلار لیویز چیک پوسٹ پر مبینہ طورپر بھتہ نہ دینے پر وہاں کے سابق تحصیلدار اور ان کے ہمراہ دیگر لیویز اہلکاروں نے ٹرک مالک ڈرائیو ر محمد آصف ساجدی ولد اللہ داد ساجدی سکنہ سحر ہور آواران پر فائرنگ کرکے انہیں شہید کردیا اور ٹرک میں موجود مختیار ولد مولابخش سکنہ آواران کو شدید زخمی کردیا۔ زخمی شخص ایک ٹانگ سے معذور وہوچکاہے، اسی گاڑی میں ایک اورشخص رحمد ولد رمضان معجزانہ طور پر فائرنگ سے محفوظ رہا۔واقع کے چشم دید گواہان میڈیکولیگل، سرٹیفکیٹ، انڈرورسڈ سرٹیفکیٹ، قانونی دستاویزات سمیت تمام تر ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں۔

لیکن ان سب کے باوجود حقائق کوچھپانے کی کوشش کے طور پر شہید آصف ساجد ی کا خون آلود قمیص اور گولیوں کے خول غائب کردیئے گئے ہیں۔ واقع میں استعمال ہونے والے مبینہ اسلحہ تفتیش میں شامل کرنے کی بجائے دوسرے ہتھیاروں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

شہید آصف ساجدی کا والٹ، پیسے، سمارٹ فون چوری کرلیئے گئے ہیں۔ مبینہ طور پر خون آلود سیٹوں کے فوم، کُشن اکھاڑ کر کہیں ڈمپ کیئے گئے ہیں اور یہ ٹرک تاحال لیویز کی تحویل میں ہے سابق تحصیلدار کی جانب سے جو راہداری گیار ستمبر کو جاری کیا گیا تھا اس میں روڈ ٹریفک ایکسیڈنٹ کا ذکر ہے تاہم انہوں نے اس کواپنے لئے خطرہ جان کر عدالت میں غلط بیانی کی اور مبینہ طور پر ایک نئی جعلی راہداری کورٹ میں جمع کرادی ہے،سزاسے بچنے کے لئے من گھڑت اور جھوٹے دستاویزات بنا کر لواحقین کے جعلی دستخط کررہے ہیں۔

تحقیقاتی رپورٹ مکمل طور پر جانبدارانہ اورحقائق کے برعکس ہیں ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ تفتیشی آفیسر نے اپنے ساتھی تحصیلدار کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کی بڑی حد تک کوشش کی ہے لیکن ان تمام تر منفی ہتھکنڈوں کے باوجود حقائق اپنی جگہ موجود ہیں اور ایف آئی آر میں نامزد لیویز تحصیلدار پر شہید آصف ساجدی کا قتل ثابت ہوچکا ہے اس میں اب کوئی دو رائے نہیں انہوں نے سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ ریاستی اسلحہ سے پر امن محنت کش ٹرک سواروں پر گولی برسائی گئی جس سے محمد آصف شہید اور مختیار جان زخمی ہوگیا۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قبائلی عمائدین کا مذید کہنا تھا کہ شہید آصف ساجدی کا قتل سنگین جرم اور انسانیت سوز واقع ہے اس لرزہ خیز انسانی خون نے سماج میں بسنے والے محنت کش طبقہ کو غیر یقینی کی صورتحال اور خوف میں مبتلا کردیا ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ مبینہ قاتل تحصیلدار اور ان کے ساتھیوں کو احتساب کے عمل سے گزار کر کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونماء نہ ہوں۔

اس اندوھنا ک ودلخراش واقع کے بعد ہم انصاف چاہتے ہیں اور ہم اپنے آئینی قانونی اسلامی و قبائلی غرض تمام ذرائع بروئے کار لانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور اس پر سمجھوتے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پُرامن شہری ہونے کے ناطے ہم نے عدلیہ سے انصاف کی امید وابستہ کررکھے ہیں حالیہ دنوں میں ہائی کورٹ آف بلوچستان کے ایک معزز جج کی جانب سے اپنے حالیہ ریمارکس میں سفاک قاتلوں کو ضمانت پر دی جانے والی رہائی پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ہم تمام ثبوتوں کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ مذکورہ بالا تحصیلدار پر ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں جن سے انکاری کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ ہم قبائلی لوگ ہیں ہمیں حق مانگنا اور حق چھیننا بھی آتا ہے تاہم ہم چاہتے ہیں کہ آئین و قانون اور احتساب کے عمل کو اختیار کیا جائے۔

اس سلسلے میں مبینہ قاتل کی صرف معطلی کافی نہیں ہے بلکہ صاف و شفاف ٹرائل کے لئے ضروری ہے کہ عدالت مجرموں کی ضمانت کے آرڈر کو فی الفور منسوخ کرکے انہیں دوبارہ گرفتارکرانے کا حکم نامہ جاری کردے تاکہ انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔مظلوم خاندان کو انصاف نہیں ملا تو نہ صرف سخت احتجاجی راستہ اپنایا جائیگا بلکہ اس سے خاندانی اور قبائلی تنازعہ و سماجی انتشار بھی پیدا ہوسکتاہے جس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوگی۔