|

وقتِ اشاعت :   November 27 – 2019

کوئٹہ: کوئٹہ کے علاقے نواں کلی سے اغواء ہونے والے نوجوان غوث اللہ کے ہلاکت کے بعد ڈپٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی صدارت میں اپوزیشن جماعتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اجلاس ہوا اجلاس میں مختلف امور پر بحث کی گئی اور اغواء کاروں کے خلاف سخت کارروائی کیلئے کوئٹہ پولیس اور لیویز کو ٹاسک دے دیا۔

پولیس نے یقین دہانی کرائی کہ یہ ہمارے لئے ٹیسٹ کیس ہے اور آئندہ چنددنوں میں کیس میں پیشرفت ہوگی اور اغواء کاروں کو گرفتار کیا جائے گا بلوچستان اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل کی صدارت میں غوث اللہ کے اغواء اور ہلاکت کے حوالے سے اجلاس ہوا۔

جس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ،بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیرشاہوانی،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر نصر اللہ زیرے،ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ،ایڈیشنل سیکرٹری ہوم ڈی آئی جی انوسٹی گیشن ڈائریکٹر جنرل لیویز سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی اجلاس میں غوث اللہ کے اغواء اور قتل کے بعد تفتیش سمیت دیگر امور پر بات چیت ہوئی اور پولیس حکام نے واضح کر دیا کہ غوث اللہ کے اغواء اور اس کے بعد قتل کئے جانے کے بعد یہ کیس ہمارے لئے بلکہ پورے بلوچستان کیلئے ٹیسٹ ہے اور اس پر ہم سخت اقدامات اٹھارہے ہیں اور اغواء کاروں کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی۔

اجلاس کے بعد اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ،بی این پی کے پارلیمانی لیڈرملک نصیر شاہوانی اور نصر اللہ زیرے نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جب تک اغواء کاروں کے خلاف منظم طور پر کارروائی نہیں کی جاتی اس وقت تک واقعات کی روک تھام نہیں ہوسکتے یہ کیس حکومت اور پولیس کیلئے ٹیسٹ کیس ہے جب تک اس واقعے میں ملوث عناصر کو گرفتار نہیں کیا جاتا اس وقت تک ہم حکومت اور پولیس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے اس واقعے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور نہ ہی لواحقین کے ساتھ ہمدردی کااظہار کیا ہے یہ منظم گروہ ہے پہلے شہید ہونے والے غوث اللہ کے بھائی اور چچا کو بھی اغواء برائے تاوان کیلئے اغواء کیا اور اب غوث اللہ کو اغواء کیا اور تاوان کے ادائیگی کے باوجود ان کو قتل کرنا حکومت پولیس اور لیویز کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے انہوں نے کہا کہ حکومت نے کارکردگی نہیں دکھائی تو پھر حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھ جائیں گے۔