|

وقتِ اشاعت :   November 30 – 2019

کوئٹہ: ملک گیرطلباء یکجہتی مارچ کے سلسلے میں کوئٹہ میں بھی طلباء تنظیموں کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی،ریلی کے شرکاء نے میٹروپولیٹن کارپوریشن سے کوئٹہ پریس کلب تک مارچ کیا۔

اس موقع پر ریلی میں شریک طلباء نے مطالبات کے حق میں پلے کارڈز،بینراوراپنی اپنی تنظیموں کے پرچم اٹھارکھے تھے،طلباء یکجہتی مارچ میں طلباء ایکشن کمیٹی کے ظہیر بلوچ،بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی سیکرٹری جنرل منیر جالب، وائس چیئرمین خالدبلوچ،،پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن آزادکے سیدزبیرشاہ،بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجارکے ملک زبیر،پشتونخوااسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کبیرافغان،ہزارہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی سیکریٹری جنرل مجتبیٰ زاہد، سماجی کارکن جلیلہ حیدر جمعیت طلباء اسلام نظریاتی کے حافظ سید نورودیگر کی قیادت میں مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طلباء وطالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

طلباء ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام میٹروپولیٹن کے سبزہ زار پر یکجہتی مارچ سے طلباء تنظیموں کے نمائندوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں طلباء یونین پرپابندی عائد کرکے اداروں میں خوف کاماحول پیداکیاگیا ہے ِتعلیمی اداروں میں طلباء کواظہاررائے کی آزادی کے بنیادی حق سے محروم رکھنا تشویشناک ہے،انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں طلباء وطالبات کو ہراساں کرنے کے حالیہ اسکینڈل کو چھپانے کیلئے گورنربلوچستان نے ادارے میں سیاسی سرگرمیوں پرپابندی عائد کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے جو قابل مذمت ہے۔

، طلباء رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں طلباء سیاست پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کرکے تعلیمی اداروں کی فیسوں میں اضافہ واپس لیا جائے اور بلوچستان یونیورسٹی میں طلباء کے اظہاررائے کی آزادی پر عائد پابندی کا حکم نامہ واپس لیا جائے۔ طلباء تنظیموں نے وفاقی وزیرفوادچوہدری کے ٹویٹ جس میں وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ طلباء یونین کوبحال کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں گے اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کھوکھلے سیاسی نعروں کادورگزرچکا ہے وفاقی وزیرکواتنی ہمدردی ہے تووہ طلباء یونین پرپابندی کیخلاف متفقہ قراردادمنظورکرکے اس سلسلے میں قانون سازی کریں طلباء کے حقوق کی بات کرنے والوں کیساتھ ہیں۔

سوشل ایکٹوسٹ جلیلہ حیدر نے بھی خطاب کیا مظاہرے میں سماجی کارکنوں سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے بھی شریک تھے۔دریں اثناء طلبہ یونین کی بحالی سمیت مطالبات کا چارٹر پیش کرنے کے لیے اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی (ایس اے سی) کی قیادت میں ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ کا انعقاد جا رہا ہے، جس میں طلبہ، رضاکار و مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہیں۔اس حوالے سے پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو (پی ایس سی) کی جانب سے پاکستان کے 50 شہروں میں ہونے والے مارچ کے حتمی مقامات کی تفصیل شیئر کی گئی۔

ملک کے کچھ مقامات پر یہ مارچ صبح کے وقت میں شروع ہوا جبکہ دیگر شہروں میں اس کے لیے دوپہر کا وقت رکھا گیا۔کراچی میں بھی طلبہ یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا جارہا، ریگل چوک صدر سے کراچی پریس کلب تک اس مارچ میں طلبہ سمیت سول سوسائٹی کے اراکین محمد حنیف، جبران ناصر اور دیگر شریک ہیں۔مارچ میں شریک طلبہ کی جانب سے ‘ہم کیا چاہتے؟ آزادی!” کے نعرے لگائے گئے۔اس کے علاوہ صوبہ پنجاب دارالحکومت لاہور میں طلبہ یکجہتی مارچ میں شرکت کرنے کے ناصر باغ میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔

مارچ کے شرکا کی حمایت کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ٹوئٹ کی۔اپنی ٹوئٹ میں بلاول بھٹو زرداری نے لکھا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ طلبہ یونین کی حمایت کی ہے، شہید محترمہ بیظیر بھٹو کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کے اقدام کو جان بوجھ کر معاشرے کو ناکارہ بنانے کے لیے کالعدم کیا گیا۔چیئرمین پیپلزپارٹی نے لکھا کہ آج طلبہ، یونینز کی بحالی، پڑھنے کے حق پر عمل درآمد، سرکاری جامعات کی نجکاری کے خاتمے، جنسی ہراسانی کے قانون کے نفاذ، طلبہ کی رہائش اور کمپسز کے ڈی ملیٹرائزیشن کے لیے طلبہ یکجہتی مارچ میں شریک ہورہے ہیں۔

اپنے ایک اور ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ‘ طلبہ کی نئی نسل کی جانب سے پرامن جمہوری عمل کے لیے سرگرمی کا جذبہ اور تڑپ واقعی متاثر کن ہے۔اس سے قبل ملک بھر میں پی ایس سی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی اور دیگر مطالبات کے لیے قومی سطح پر ایک (اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی) قائم کی گئی تھی۔پنجاب، سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر سے طلبہ تنظیموں کے نمائندے اس ایکشن کمیٹی کا حصہ ہیں۔اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے اپنے مارچ کے انتظامات کے لیے گزشتہ 3 ہفتوں سے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں کارنر میٹنگ کا انعقاد کیا جارہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے طلبہ کو مایوس کیا اور بے سمت چھوڑ دیا ہے اور ہائر ایجوکیشن بجٹ کو تقریباً نصف تک کم کردیا ہے جبکہ پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں لے آئی ہے جہاں تعلیم پر بہت کم رقم خرچ ہوتی ہے۔اس حوالے سے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی لاہور سے جرنلزم میں گریجویشن کرنے والے اور اس ایونٹ کے منتظمین میں سے ایک حیدر کلیم کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور کرنے کی وجہ وہ حلف نامہ ہے جس پر داخلے کے وقت ہر طلبہ کو دستخط کرنا ہوتے ہیں۔

بنیادی طور پر طلبہ یونین پر کوئی پابندی نہیں لیکن کچھ مخصوص احکامات کے ذریعے پابندیاں عائد ہیں لہٰذا طلبہ کیمپس میں مظاہرے یا سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے’۔پروگریسو اسٹوڈنٹس فیڈریشن (پی آر ایس ایف) اور پی ایس سی کے منتظم حیدر کلیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ مارچ کے شرکا کے بہت سے مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ ان پابندیوں کو ہٹایا جائے جس نے طلبہ کو یونینز بنانے سے روکا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حلف نامے کو لاہور ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کیا جارہا تھا لیکن وہاں اس معاملے کے حل ہونے کی کم امید تھی۔کراچی کی ریگل چوک سے پریس کلب تک ہونے والے اس مارچ میں شامل ایک پولیٹیکل سائنس کے طالبعلم نے ڈان کو بتایا کہ بنیادی طور پر ہمارے 10 مطالبات ہیں لیکن ہر صوبے یا یونٹ کی جانب سے ضرورت کے مطابق فہرست میں مزید اضافہ کیا گیا۔اس مارچ سے قبل بین الاقوامی جامعات میں پڑھنے والے کچھ پاکستانی طلبہ لیڈرز نے مارچ کی حمایت میں آواز بلند کی تھی۔