|

وقتِ اشاعت :   December 1 – 2019

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ فغانستان میں طویل جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں گے۔ طالبان معاہدہ کرنا چاہ رہے ہیں اس لیے ہم ان سے ملاقات کررہے ہیں،ہم کہتے ہیں کہ جنگ بندی ہونی چاہیے، وہ سیز فائر نہیں چاہتے تھے لیکن اب وہ بھی جنگ بندی چاہتے ہیں اور میرے خیال سے اب کام ہوجائے گا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غیر اعلانیہ دورے پر افغانستان پہنچ گئے۔

صدارت سنبھالنے کے بعد یہ اْن کا افغانستان کا پہلا دورہ ہے افغانستان پہنچنے پر افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی جس کے بعد ڈونلڈٹرمپ نے امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان تحریک طالبان امن معاہدے کی خواہش رکھتی ہے جبکہ طالبان فائر بندی چاہتے ہیں۔ٹرمپ نے انکشاف کیا کہ امریکا نے طالبان کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کر دی ہے واضح رہے کہ یہ کسی بھی امریکی صدر کا افغانستان کا دوسرا دورہ تھا، اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس کرسمس کے موقع پر عراق کا دورہ کر کے وہاں تعینات امریکی فوجیوں سے ملاقات کی تھی۔

امریکی صدر نے صدارتی انتخابی مہم کے دوران بھی افغانستان میں امریکی جنگ کے خاتمے کی خواہش کا اظہار کیاتھا۔بعدازاں امریکا اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس باضابطہ طور پر بات چیت کا آغاز ہوا تھا، تاہم رواں برس ستمبر میں طالبان حملے میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان رہنماؤں کے ساتھ ملاقات منسوخ کرکے مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔تاہم طالبان کی جانب سے اغوا کیے گئے امریکی اور آسٹریلوی پروفیسرز کی رہائی کے بعد امن عمل کی بحالی کے امکانات روشن ہوئے۔ امریکی شہر نیویارک میں 11 ستمبر 2011 کو ہونے والے حملے کے بعد افغانستان پر امریکا نے چڑھائی کردی تھی اور اس کے بعد سے نیٹو دستے وہاں موجود ہیں، اس جنگ کے دوران 2400 امریکی فوجی مارے جاچکے ہیں،ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ روک دیا تھا۔

اس بات چیت کا مقصد امریکی اور غیر ملکی افواج کے انخلاء کے معاہدے تک پہنچنا ہے، اور اس کے مقابل طالبان کی جانب سے سیکورٹی ضمانتیں حاصل کرنا ہے۔طالبان نے رواں سال کے دوران ستمبرکے مہینے میں کابل میں دھماکے کیے تھے ان کارروائیوں میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بہرحال یہ خطے کا طویل ترین مسئلہ ہے کہ افغان مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے کیسے نکالاجائے جس کیلئے کوششوں کا سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے مگر نتائج برآمد نہیں ہوئے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا موجودہ افغانستان کا دورہ غیر معمولی ہے جس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل کے حوالے سے ایسے اقدامات پر غور کیاجائے گا تاکہ طالبان کے ساتھ بات چیت آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ طاقت کے استعمال سے گریز کیاجائے تاکہ بات چیت میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔

اس سے قبل کوئی تحریری معاہدہ ایسا نہیں ہوا کہ جنگ بندی کے حوالے سے کوئی بھی پہل نہیں کرے گا اسی لئے یہ جنگ طول پکڑتا گیا اور انسانی بحران کا سبب بنتا رہا آج بھی افغانستان غیر مستحکم ہے اور بدترین جنگی حالات کا نہ صرف سامنا کررہا ہے بلکہ معاشی بدحالی سمیت دیگر گھمبیر مسائل میں جکڑا ہوا ہے اسی وجہ سے اس کے براہ راست اثرات دیگر ممالک پر بھی پڑرہے ہیں۔ خطے میں موجود ممالک کا کردار جتنا اہم ہے اتنا ہی عالمی طاقتوں نے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ افغانستان مسئلے کا مستقل حل نکالا جاسکے کیونکہ یہ واضح ہے کہ افغانستان جنگ صرف عالمی طاقتوں کی تھانیداری کا مسئلہ ہے جس سے وہ خطے میں اپنا کنٹرول چاہتے ہیں اور اسی عالمی چپقلش کے باعث افغان جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔