کراچی: بی ایس او کراچی زون کے صدر عبداللہ میر نے کہا ہم سندھ حکومت کی جانب سے طلبہ یونینز پر پابندی ختم کرنے کی منظوری اور طلبہ یونینز کی بحالی سے متعلق قانون سازی کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امید ہے کہ اس پر جلد عمل درآمد کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ان یونینز کی ضرورت اور افادیت پر بحث کرنے سے پہلے ہم یہ واضح کردیں کہ طلبہ یونینز کا ہونا ہر طالب علم کا آئینی حق ہے، دستور پاکستان کا آرٹیکل نمبر سترہ 17 اس کا ضامن ہے، طلبہ یونینز کے خلاف لوگوں کو عام تاثردیا گیا ہے کہ ان یونینز سے طلبہ کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے اور تعلیمی اداروں میں شروفساد پیدا ہوتا ہے جوکہ ایک غلط تاثر ہے، یہ تاثر نوجوان طبقے خاص طور پر طلبہ کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے سازش کے طور پر دیا گیا ہے۔
طلبہ یونینز اور طلبہ سیاست دوسرے غیر نصابی سرگرمیوں کی طرح ایک سرگرمی ہے جس سے طلبہ کی سیاسی تربیت ہوتی ہے، ان یونینز سے طلبہ کو جمہوری پریکٹس کا موقع ملتا ہے، طلبہ کو مثبت بحث و مباحثے کا موقع ملتا ہے، یونینز طلبہ کے تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لانے میں مدد کرتے ہیں، ان کو بولنے اور لکھنے کا انداز سیکھاتے ہیں۔
طلبہ یونینز مختلف علاقوں اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو متحد کرتی ہیں اور ان کو اپنے مطالبات پیش کرنے، قانونی طریقے سے اپنے مطالبات تسلیم کروانے کیلئے غلط حکمرانوں پر دباؤ ڈالنے اور اختیارات کا صحیح استعمال کرنے کا ہنر سیکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یونینز طلبہ کو جمہوری نظام سے آشنا کرواتے ہیں اور امیر غریب کی تفریق کئے بغیر تمام طلبہ کو قومی اور عالمی سیاست میں حصہ لینے کے یکساں مواقع فراہم کرتے ہیں، طلبہ کو ملک کا مستقبل تصور کیا جاتا ہے۔
اگر ہم ملک کا مستقبل روشن اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں مل کر طلبہ یونینز کی بحالی کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی، ریاست کو بھی یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ ملک کی ترقی کے لیے طلبہ یونینز کی موجودگی لازمی ہے، تاکہ طلبہ ان یونینز کے ذریعے اپنے تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لایے اور ان سے ملک کو فائدہ پہنچائے۔