|

وقتِ اشاعت :   December 5 – 2019

کاروباری ہفتے کے تیسرے روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں 20 پیسے کی نمایاں کمی ہوگئی جس سے یہ گزشتہ کئی ماہ کے بعدنچلی ترین سطح پر آگئی۔ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے مطابق اوپن مارکیٹ میں آج ڈالر 155.15 روپے میں فروخت ہوا جو کہ گزشتہ روز 155.35 روپے میں دستیاب تھا۔اسی طرح انٹر بینک میں آج ڈالر 155.25 میں فروخت ہوا۔ رواں سال جون سے لیکر اب تک ڈالر کی قیمت میں آٹھ روپے 85 پیسے کی کمی ہوچکی ہے۔2019 کے آغاز میں ڈالر کی قیمت میں روپے کے مقابلے میں پیش رفت جاری رہی۔ جنوری میں ڈالر 138 روپے93 پیسے، فروری میں 138 روپے 90 پیسے اور مارچ میں 139 روپے10 پیسے پر ٹریڈ کررہا تھا۔اپریل 2019 میں ڈالر چھلانگ لگا کر 141 روپے 50 پیسے پر چلاگیاتھا۔ مئی میں 151 روپے اور جون میں تاریخ کی بلند ترین سطح 164روپے پرجا پہنچی۔ جولائی 2019 میں ڈالر کی اڑان رک گئی اور ڈالرکی قیمت میں کمی کے بعد انٹربینک میں 160 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 161 روپے کا ہوگیا۔

اگست 2019 میں روپے نے ڈالر کا جم کر مقابلہ کیا اور ڈالر 157.20 روپے تک پہنچ گیا۔ ستمبر 2019 کے اختتام پر ڈالر کی قیمت میں مزید کمی واقع ہوئی اور یہ 156.40 روپے پر پہنچ گیا۔2019 کے سال کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستانی عوام اور خاص طور پر غریبوں اور مڈل کلاس کے لیے بہت بھاری گزرا۔ڈالر کے اتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری ہے یقینا روپے کے مستحکم ہونے سے ملکی معیشت میں بہتری آنے کی امید پیدا ہوگی اور ساتھ ہی عوام جن کی چیخیں موجودہ مہنگائی نے نکال دی ہیں،کو تسلی مل جائے گی کہ آنے والا وقت کچھ بہتر ہوگا،روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں بھی فرق آئے گااور ساتھ ہی ٹیکسز کا بوجھ ان کے کندھوں پر کم ہوتا جائے گا کیونکہ عوام بڑے پیمانے پر ٹیکس ادا کررہی ہے جبکہ بڑے مگر مچھ تو اب تک حکومت کی گرفت میں نہیں آرہے جن سے اربوں روپے وصول کرنے تھے جنہوں نے قومی خزانے کو لوٹ کر بیرون ملک منتقل کیا یا پھر جائیدادیں بنائیں۔ بدقسمتی سے آج بھی صورتحال ٹیکس کے حوالے سے کچھ خاص بہتر نہیں کیونکہ بڑے بڑے صنعت کار ٹیکس کے دائرہ کارمیں نہیں آرہے۔حال ہی میں حکومت نے جب کاروباری طبقہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی تو پورے ملک میں تجارتی مراکز کو بند کردیا گیا جس سے پورا معاشی نظام مفلوج ہوکر رہ گیا۔


دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس کاروباری طبقہ سے ہی لیا جاتا ہے چونکہ ان کا بڑا سرمایہ لگا ہوتا ہے جس سے وہ بھرپو رمنافع کماتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ماضی میں صنعتکاروں کی حکومت نے ان لاڈلوں کو مکمل چھوٹ دے رکھی تھی چونکہ ان حضرات کے مالی مفادات ان سے وابستہ تھے اس لئے ان پر کبھی بھی ہاتھ نہیں ڈالا گیا جبکہ موجودہ حکومت بھی ہڑتال کے باعث پیچھے ہٹ گئی اور عوام ہی سے ساراٹیکس وصول کیا جارہا ہے جبکہ یہ حضرات اپنے کاروبار کا پورا منافع سود سمیت لے رہے ہیں اور عوام کا خون چوسنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہے۔ یہی کاروباری طبقہ جب مہنگائی عروج پر پہنچ جاتی ہے تو سڑکوں پر دکھائی نہیں دیتا کیونکہ انہیں صرف اپنے اشیاء مہنگے کرنے پڑتے ہیں جبکہ عوام بہ مجبوری اس مہنگائی میں پس جاتے ہیں۔ جب تک ملک میں دوہرا نظام رہے گا،عام لوگوں کی زندگی میں کوئی خاص بہتری نہیں آئے گی بلکہ امیر سرمایہ کاری کرکے پیسہ کمائے گا جبکہ غریب کی زندگی بدسے بدتر ہوتی جائے گی۔دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کی وجہ صرف قانون ہے جس سے بالاتر کوئی نہیں اور اس پر عملدرآمد کرنے کے بعد ہی مستقبل روشن ہوسکتا ہے وگرنہ غریب کی زندگی میں چند دنوں کی خوشیاں پھر وہی غم اور بوجھ ہیں۔