وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے آئندہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل امور کا جائزہ اور اس حوالے سے صوبائی حکومت کے موقف کو حتمی شکل دینے کے لئے گزشتہ روز اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا، سیکریٹری بین الصوبائی رابطہ کی جانب سے اجلاس کو مشترکہ مفادات کونسل کے ایجنڈے میں شامل امور پر بریفنگ دی گئی، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں قدرتی وسائل اور تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش وترقی کے منصوبوں پر صوبے کو حاصل اختیارات کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا، اور اس حوالے سے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلا س میں بھرپور اور مدلل موقف اپنایا جائے گا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تیل اور گیس کی تلاش اور ترقی کے منصوبوں کے جائزہ اور حکومت بلوچستان کے موقف کی تیاری کے لئے کنسلٹنٹس اور اس شعبہ کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی، اجلاس میں پاکستان اسٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی سے متعلق سیکریٹری خوراک نے اجلاس کو بریف کرتے ہوئے بتایا کہ کوالٹی کنٹرول اسٹینڈرڈ کا اختیار 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو تفویض کردیا گیا ہے اس ضمن میں رجسٹریشن اور لائسنس کے اجراء کے لئے کمیشن کے قیام اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کے حوالے سے مشترکہ مفادات کونسل کے آنے والے اجلاس سے قبل ٹاسک فورس کا اجلاس منعقد کرکے تمام ا مور کا تفصیلی جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس میں 1991ء کے ارسا معاہدے کے مطابق بلوچستان کے حصے کے پانی کے حصول کے لئے بھی جاندار موقف اختیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت ہر فورم پر بلوچستان کے عوام کے حقوق کے تحفظ اور مفادات کو ہر صورت مقدم رکھے گی اور مشترکہ مفادات کونسل کے اگلے اجلاس میں صوبے کے وسیع تر مفاد کے مطابق موقف اپنایا جائے گا۔گزشتہ سال 2018ء اپریل کے مہینے میں قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں تین صوبوں، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے وفاقی پی ایس ڈی پی کو مسترد کر تے ہوئے واک آؤٹ کیا تھا اور ضمنی بجٹ پیش کر نے کا اعلان کیا تھا۔
سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پی ایس ڈی پی میں چھوٹے صوبوں کا خیال نہیں رکھا گیا، ہمارے واک آؤٹ کے بعد اجلاس کا کورم ٹوٹ گیا، اگر ہمارے واک آؤٹ کے بعد کچھ ہوا تو وہ غیر آئینی ہے، ہم نے جو سفارشات دی تھیں وہ نہیں مانی گئیں اور اپنی مرضی کی اسکیمیں پی ایس ڈی پی میں شامل کی گئیں۔پی ایس ڈی پی میں گزشتہ سال کی اسکیموں کو نئی اسکیموں کی صورت میں پیش کیا گیا ہے،ہم کسی بھی صورت اگلی حکومت کا بجٹ نہیں مانیں گے، کسی کا بھی حق نہیں بنتا کہ وہ اگلی حکومت کیلئے بجٹ بنائے۔
گزشتہ پانچ سالوں کے پانچ ہزار ارب کے پی ایس ڈی پی کے بجٹ میں سے صرف 320ارب بلوچستان کو دیئے گئے، 320ارب سے بلوچستان کو کیسے ترقی دی جاسکتی ہے۔اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اقتصادی کونسل اجلاس کی صدارت کی تھی،صوبوں کے سالانہ بجٹ اور ترقیاتی پروگراموں پر تحفظات کے باعث سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے اجلاس سے واک آؤٹ کیاتھا۔واک آؤٹ کے بعد تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل اکنامک کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، چاروں صوبوں کا خیال رکھا جائے مگربدقسمتی سے وفا قی حکومتوں کے ناروا رویہ کے باعث چھوٹے صوبے ہمیشہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہے ہیں باوجود اس کہ بلوچستان اپنے وسائل اور میگا پروجیکٹس کے باعث ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔
یہ گزشتہ حکومت کی کارکردگی کی صرف ایک جھلک ہے خیر اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف بلوچستان میں عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی اور اس طرح مسلم لیگ ن سمیت ان کے اتحادیوں کی حکومت ختم ہوگئی چونکہ ہمارے یہاں سیاسی مفادات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے البتہ موجودہ بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت پی ٹی آئی کی بڑی اتحادی ہے جو صوبہ اور وفاق میں ساتھ ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل میں صوبہ کے وسیع تر مفادات اور اس کی ترقی کیلئے 18ویں آئینی ترمیم سے متعلق زبردست مؤقف اپنانے کا ارادہ اور اسے کونسل میں پیش کرنے کے بعد عملدرآمد کو یقینی بنانے سے صوبہ کے بہت سے مسائل تو حل ہونگے مگر اس کے ساتھ ہی بلوچستان کے قدرتی وسائل، تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش وترقی کے منصوبوں پر صوبے کو حاصل اختیارات کے ذریعے صوبہ میں صنعتی انقلاب برپا ہوگا جس سے معاشی تبدیلی یقینی ہوجائے گی جبکہ روزگار کے بھی بہت سارے ذرائع پیدا ہونگے۔ امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور اس کے اتحادی صوبہ کا مقدمہ مشترکہ مفادات کونسل میں بہتر انداز میں لڑینگے تاکہ صوبہ کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کو پسماندگی سے نکالنے میں مدد ملے گی۔