بلوچستان کے سینکڑوں بیروزگار نوجوان مایوسی کی حالت میں دردرکی ٹھوکریں کھانے پرمجبورہیں۔تبدیلی سرکارکے دورمیں دووقت کی روٹی پوری کرنابھی مشکل ہو گیا ہے۔دن بھر محنت مشقت کے باوجومناسب اجرت نہیں ملتی،مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوان ذہنی دباؤکاشکارہیں۔بے شمار قدرتی معدنیات ووسائل سے مالامال بلوچستان میں بیروزگاری کی وجہ سے سینکڑوں قابل نوجوان دردرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبورہیں۔ایک سروے رپورٹ کے مطابق اندرون بلوچستان سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے کوئٹہ آنے والے طلباء اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ شدید محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں مگر اس کے باوجود ان کا گزربسر نہیں ہورہا جن میں ایسے ہونہار طالب علم شامل ہیں جنہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن میں ماسٹرزکا امتحان بھی پاس کئے ہیں جبکہ مختلف سرکاری محکموں میں ٹیسٹ اورانٹرویوز میں بھی کامیاب رہے ہیں مگروہ اب بھی بیروزگار ہیں۔
یہ طالب علم دن بھر کوئٹہ شہر میں محنت مشقت کرکے بہ مشکل اپنے دو وقت کی روٹی پورا کرپاتے ہیں، کم اجرت پر ان کا گزارا نہیں ہوتا،طالب علموں نے حکومت سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم یافتہ اورذہین نوجوان اپنا تعلیمی سلسلہ مکمل کرنے کے بعد بھی بیروزگاری کی وجہ سے روزانہ اجرت پربامشقت کام کرنے پرمجبورہیں جس پر حکومت توجہ ہی نہیں دے رہی۔دوسری جانب سرکاری محکموں میں مبینہ طورپرکرپشن وکمیشن مافیا سرگرم ہے جس کی وجہ سے غریبوں کیلئے ملازمتوں کاحصول ایک خواب بن گیا ہے،ان طالبعلموں نے وزیراعلیٰ بلوچستان ودیگر حکام بالاسے مطالبہ کیا کہ صوبے کے ہونہاراورذہین نوجوانوں کوقابلیت کی بنیادپرسرکاری محکموں میں روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں تاکہ ان کی مشکلات کاازالہ ممکن ہوسکے۔یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے جسے سنناکسی کو بھی گوارا نہیں یقینا یہ موجودہ حکومت نہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں کی بھی غفلت اور لاپرواہی ہے جنہوں نے ہونہار طالبعلموں پر سرمایہ کاری نہیں کی اور نہ ہی ایسی سہولیات مہیا کیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد باآسانی ایک بہترروزگار پر لگ جائیں۔
بلوچستان کے بدقسمت نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ بہترین تعلیم حاصل کرنے کے باوجود دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں اور روزگار کیلئے سرحد پر اسمگلنگ کا کاروبار کرنے پر مجبور ہیں،پیٹرول اور ڈیزل کے کاروبار سے تعلق رکھنے والے بیشتر نوجوان تعلیم یافتہ ہیں مگر روزگار نہ ملنے کی وجہ سے یہ کام کرتے ہیں اور اسی طرح حادثات کا شکار ہوکر جوانی میں ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں ترقی یافتہ ممالک کی مثال آئے روز دی جاتی ہے، انصاف اورقانون کے متعلق لیکچر دیئے جاتے ہیں مگر عملاََ کچھ نہیں کیا جاتا۔ بلوچستان کے ہونہار طالبعلموں کا بڑا شکوہ یہ بھی ہے کہ ان کے حصے کی ملازمتیں دیگر صوبوں کے لوگوں کودی جاتی ہیں جو ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے کیونکہ سب سے پہلے بلوچستان کے نوجوانوں کا حق ہے کہ انہیں روزگار فراہم کیا جائے۔
صوبائی حکومت کو چائیے کہ وہ دو قدم آگے بڑھ کر انسٹیٹیوٹ تشکیل دیں جہاں پر کورسنگ سسٹم بنائے جائیں اور انہیں بیرون ملک روزگار کیلئے بھیجا جائے تاکہ ان کا مستقبل روشن ہوسکے کیونکہ صرف سرکاری ملازمتوں کو ہی ذریعہ روزگار نہیں بنایاجاسکتا بلکہ روزگار کے دیگرمواقع پیدا کرنے پر بھی زور دیا جائے۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت نوجوانوں کی مشکلات کا ازالہ کرکے انہیں سہولیات فراہم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے گی تاکہ نوجوانوں کے اندر جنم لینے والی مایوسی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔