اِس دنیا میں کوئی بھی چیز مفت او ر آسانی سے نہیں ملتی اِس کے لئے کوئی نہ کوئی قیمت ضرور ادا کرنی پڑتی ہے، حتیٰ کہ ایک بھکاری بھی مفت میں بھیک نہیں مانگتا اِس کے لئے وہ اپنا عزت نفس اور خودی کو مارڈالتاہے۔ ہمارے معاشر ے میں نوجوان اپنے روشن مستقبل کے لئے اپنا وقت اور سرمایہ لگاتے ہیں۔ ہر کوئی اِسی تگ و دو میں ہے کہ کسی بھی طرح کامیابی حاصل ہو، کوئی لمبا راستہ اختیار کرتا ہے اور کچھ نازک اور منچلے مزاج والے شارٹ کٹ کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں اپنے ضمیر کومار دیتے ہیں۔
ایسے لوگ پھر جلدی کامیاب بھی ہوجاتے ہیں اورپھرخود حقدار کے حق پہ سانپ کی طرح کونڈلی مارکر بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر اُن کے ہتھے جو بھی چڑھتا ہے وہ بیچارا اپنی قسمت کو روتا ہے لیکن جو اِن کو بھاجاتے ہیں، وہ بہتی گنگا میں نہا لیتے ہیں، پھر ایک سرکل بن جاتا ہے کرپٹ لوگوں کا ایک ٹولہ بن جاتا ہے،جتنی بھی سرکاری پوسٹیں اور مراعات آتی ہیں اِنھی کے سرکل سے باہر نہیں نکل پاتیں، سب کچھ آپس ہی میں تقسیم ہوجاتا ہے۔
خواتین کوٹہ سے لے کر معذور کوٹے تک پر اپنا ہاتھ صاف کرلیتے ہیں۔ اوپر سے نیچے تک پورا سسٹم کرپٹ اور بے حس لوگوں کے ہاتھوں میں جاتا ہے جس کا مقصد صرف اپنے لوگوں کا مستقبل سنوارنا ہے چاہے اِس کے لیے اُن کو کسی کابھی مستقبل تاریکی میں دھکیلنا کیوں نہ پڑے۔ بجائے عوام کی بھلائی کے کام کرنے کے وہ عوام کی آواز کو بیچ میں گول مول کردیتے ہیں۔
16دسمبر2014کو پشاور کے ایک اسکول میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا تھا جس میں پھول جیسے نازک اور معصوم بچے اور بچیوں پر گولیاں برسائیں گئیں جس کے نتیجے میں سینکڑوں پھول کھِلنے سے پہلے ہی مُرجھا گئے، اِس واقعہ پرعوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا، جگہ جگہ تعزیتی پروگرام منعقد کیے گئے، سول سوسائٹی نے بھرپور اپنا کردار ااد ا کیا اور گورنمنٹ نے اِس پر فوراً ایکشن لیا۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے دارالحکومت اسلام آباد کے 122سکولوں اور کالجوں کو آرمی پبلک سکول کے شہید ہونے والے بچوں کے ناموں سے منسوب کرنے کی منظوری دی۔ اِس حملے میں ملوث مجرمان کو پھانسی دی گئی۔ علاوہ ازیں اِس حملے میں نشانہ بننے والے طالب علموں، والدین او ر اساتذہ جو اِس حملے محفوظ رہے تھے اُن کو سرکاری خرچے پر ہانگ کانگ کے دس روزہ دورے پر روانہ کیا گیا، شہید بچوں کے والدین کو عمرہ بھی کرایا گیا، تاکہ اُن کے ذہنوں پر پڑنے والے اثرات کو کسی حد تک کم کیا جاسکے۔ یہ قدم مثبت رہا اور وہ بچے پھر سے زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ اِس میں سول سوسائٹی نے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا تھا، میڈیا نے کہرام مچایا تھا، اسمبلیوں میں بیٹھے لیڈران نے بھی اِس میں اپنا حصہ ڈالا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ اِس پر فوراً ایکشن لے اور حکومت نے ایکشن لیا۔
کہنے کا مطلب یہ کہ سب نے اِس میں اپنا حصہ ڈ الا، اپنے ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھ کر سب اِس ایک کام میں لگ گئے۔ اگر ہم دوسری طرف اپنا موازنہ کریں تو ہم نے کیا کیا ہے اپنے لوگوں کے لیے؟۔ اس طرح کا ایک واقعہ سال 2018 میں بلوچستان کے شہر تربت میں بھی ہوا تھاجس میں گیس سلنڈر کا دھماکہ ہوا اور اسکول بس میں سوار ننھے کلیاں آگ کی شعلوں کی لپیٹ میں آگئے، اِس دل دہلا دینے واقعے میں ایک ہی ماں کے 4بچے دیکھتے ہی دیکھتے آگ کی نظر ہوگئے، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اُن کو اسپتال پہنچایا، لیکن شومئی قسمت امیر صوبہ کے غریب بچے برن سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے ماہی بے آب اور مرغ بسمل کی طرح تڑپتے رہے اور کچھ پھول سے بچے جھلسے ہوئے حالت میں کراچی روانہ کیے گئے جن میں سے کچھ اپنے خالق ِ حقیقی سے جاملے۔
اُس وقت شہر تربت میں قیامت ِ صغرا کا منظرتھا، جلتی ہوئی کتابیں جن میں تتلیوں کی تصویریں بنی ہوئیں تھیں، فضا میں جلے ہوئے گوشت اور خون کی بو سے دماغ کی رگیں پھٹ رہیں تھیں۔اگرچہ ہم سب نے اُس وقت بہت شور مچایا، افسوس کیا، لیکن پھر جیسے ہی معاملہ ٹھنڈا ہوا،ہم لمبی تھان کر سوگئے۔ ہمارے پاس اُن ستم ظریفوں کے لیے صرف دلاسے کے چند بول تھے۔ ہم اِس واقعے کو قسمت کا لکھا سمجھ کر بھول گئے۔ہم نے اِس پر شورنہیں مچایا صرف گروپوں میں اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہے، ہم نے اُن خاندانوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کا راستہ نہیں ڈھونڈا۔
ہم اُس باپ کو بھول گئے جس کے 4بچے اِسی ایک واقعہ میں آگ کی نظر ہوگئے، ہمارے لیڈران کے پاس اُن کو دلاسہ دینے کے وقت نہیں تھا یا پھر اُن کو جانتے بھی نہیں تھے۔ کیا اِن بچوں کے خاندان والوں کایہ حق نہیں بنتاکہ اِن کو کمک کے نام پر توڑا سا دلاسہ دیا جائے؟ لوگ تو اپنے پیاروں کو صدیوں تک نہیں بھولتے لیکن ہم نے تو اپنے بچوں کو ایک ہی سال میں بھلا دیا۔کیا میرے قوم کے بچے،بچے نہیں تھے؟ کیا میرے قوم کے بچوں کو درد نہیں ہواتھا؟ کیا اِن والدین کو صدمہ نہیں لگا تھا؟۔ پھر کیا وجہ تھی جو اتنی خاموشی سے یہ ننھے پھول منوں مٹی تلے دب گئے اور پتا بھی نہ ہلا۔ نہ اُن کے خاندان والوں کو سرکاری سطح پر کوئی امدادی رقم اور نہ کوئی مراعات دی گئیں۔اِس کی سب سے بڑی وجہ سول سوسائٹی کا خاموش رہنا ہے۔
اُس واقعے پرسول سوسائٹی نے بھی کوئی خاطرخواہ کردار ادا نہیں کیا۔ 2019میں روڈ ایکسیڈنٹ میں شہید ہونے والے سابق مکران کمشنر طارق زہری کو جب سرکاری طور پر شہید قرار دے دیا گیاتو یہاں ساری سول سوسائٹی نے ایک ہی سوال اُٹھایا کہ کیا اُن کے گن مین اور ڈرائیور اپنے فرض کی انجام دہی کے دوران جان بحق نہیں ہوئے تھے، اِ س پر ساری سول سائٹی اُٹھ کھڑی ہوئی اور آخر کار وہ دونوں بھی سرکاری طور پر شہید قرار پائے۔
اِس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نمائندے اور سول سوسائٹی معاشرے کے ستون ہوتے ہیں۔ اوراُن کو زندہ رکھتاہے اُن کا زندہ ضمیر جو انسان سے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتا اور اُ ن سے کوئی غلط کام نہیں کرواتا۔ یہ واقعہ اِس بات کی دلیل ہے کہ لوگ انصاف اور ناانصافی کے فرق کو سمجھنے لگے ہیں، اور اُن کے ضمیر وں پہ لگے گرد کی موٹی تہہ ہٹنے لگی ہے۔