چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے اتوار کو آرسنل اور مانچسٹر سٹی کا کھیل نشریاتی فہرست سے خارج کر دیا جس کی وجہ مڈ فیلڈر میسوت اوزیل کی جانب سے دیا جانے والا حالیہ بیان ہے۔
اوزیل نے اویغور مسلمانوں سے سلوک کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی تھی۔
آرسنل نے جرمن فٹ بالر کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک تنظیم کی حیثیت سے ہمیشہ ہی غیر سیاسی رہی ہے۔
گلوبل ٹائمز نے اوزیل کے بیان کو ’جھوٹ‘ قرار ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے فٹبال فیڈریشن کو مایوس کیا ہے۔
ادھر چین کی فٹبال فیڈریشن نے اوزیل کے بیان کو ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے چینی مداحوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں اوزیل نے جو کہ خود بھی مسلمان ہیں کہا کہ اویغور مسلمان ظلم و ستم کا سامنا کر رہے ہیں۔ انھوں نے چین کے علاوہ مسلم امہ کے اس معاملہ پر خاموش رہنے پر تنقید بھی کی۔
چین مسلسل اویغور مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کم از کم دس لاکھ مسلمانوں کو جن میں اکثریت اویغور برادری کی ہے قید کیا گیا ہے جبکہ ان کے خلاف کوئی مقدمہ بھی قائم نہیں کیا گیا۔
چین کا کہنا ہے کہ ان افراد کو پرتشدد مذہبی شدت پسندی سے روکنے کے لیے ہنرمندی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔
اس سے پہلے اکتوبر میں امریکی باسکٹ بال ایسوسی ایشن کو ایک اہلکار کی جانب سے بیان پر چین سے تعلقات میں کشیدگی کی بنا پر مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
ہیوسٹن راکٹس کے مینیجر نے اپنی ٹویٹ میں ہانگ کانگ مظاہروں کی حمایت کی تھی۔
اس کے نتیجے میں چینی فرم نے ان کی سپانسر شیپ اور نشریاتی معاہدے معطل کر دیے تھے۔
گزشتہ برس مغربی صوبے سنکیانگ میں حکام نے بڑے پیمانے پر مسلم اویغور افراد کے لاپتہ ہونے کی خبروں پر بڑھتی ہوئی عالمی تشویش کے بعد ان افراد کے لیے بنائے جانے والے مراکز کو قانونی شکل دینے کا اعلان کیا ہے۔
چینی حکام کے مطابق یہ ہنر سکھانے کے مراکز یا ‘ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز’ ہیں جہاں ‘سوچ میں تبدیلی’ کے ذریعے شدت پسندی سے نمٹا جائے گا۔
تاہم حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم گروپوں کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں رکھے جانے والے افراد سے صدر شی جن پنگ سے وفاداری کا حلف اٹھوایا جاتا ہے اور انھیں اپنے عقیدے پر تنقید کرنے یا اسے ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں امریکہ کے ایوانِ نمائندگان نے چین میں اویغور مسلمانوں کی ‘عبوری نظر بندی، جبری سلوک اور ہراس’ کے خلاف ایک قانون کا مسودہ منظور کیا تھا۔
اس بل میں چینی حکومت کے ارکان اور خاص طور پر چین کے خودمختار صوبے سنجیانگ میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری چین چوانگؤ پر ‘ہدف بنا کر پابندیاں’ لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔