لاہورپی آئی سی سانحہ ملک کی بدترین واقعات میں شمار ہوچکا ہے کیونکہ ایک ایسے طبقہ نے اسپتال پر حملہ کیا جو قانون کی بالادستی کیلئے خدمات سرانجام دیتا رہا ہے اور جب قانون کے رکھوالے ہی قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ایسا اقدام کریں جو پوری دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی کا سبب بنے تو یقینا وہ ناقابل برداشت ہے ویسے بھی بڑی بڑی جنگوں میں اسپتالوں کو نشانہ بنانا جنگی قوانین کی خلاف ورزی قرار دی جاتی ہے کیونکہ اس میں نہتے شہریوں اور بیماروں کا علاج ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے وکلاء نے ڈاکٹرزکے ساتھ اپنی جنگ کے دوران اسپتال کو نشانہ بنایا اور اسپتال پر دھاوا بول دیا جس کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسے عمل کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تشدد کا عنصر بڑھتا جارہا ہے،برداشت کا مادہ ختم ہوتاجارہا ہے جب چاہے کسی بھی ادارے پر حملہ آور ہونا یا پھر املاک کو نقصان پہنچانا ایک معمول بن چکا ہے۔
شاہراہوں کو بلاک کرکے عام لوگوں کو اذیت میں مبتلا کرنا، ملک کی معیشت کو جام کرنا، معمولات زندگی کو متاثر کرنا گویا احتجاج میں شامل ہوگیا ہے یعنی کسی بھی پُرتشدد عمل کو اپنا جائز اور قانونی حق سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال ایسی روایات کسی اور نے نہیں بلکہ ہمارے یہاں جمہوریت کے علمبرداروں نے پروان چڑھایا ہے جس کے نتائج آج بھیانک طور پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلاء کے حملے کو افسوسناک قرار دے دیا۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا سستے انصاف کی فراہمی سے متعلق کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ایسا واقعہ کاہونا المناک اور بدقسمتی ہے، یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ المناک سانحہ موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے اندر کاجائزہ لیں اور خود احتسابی کریں۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی سی معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، اس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان دونوں پیشوں سے عظیم اقدار وابستہ ہیں اور امید ہے کہ اچھی سوچ ہی غالب آئے گی۔واضح رہے کہ 11 دسمبر کو وکلاء نے لاہور میں دل کے اسپتال پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کیاتھا جس کے نتیجے میں خاتون سمیت 3 مریض بروقت علاج نہ ہونے پر انتقال کرگئے تھے جبکہ اِس حملے میں اسپتال میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی تھی۔پولیس نے اب تک واقعے میں ملوث 83 وکلاء کو گرفتار کیا ہے جبکہ 46 وکلاء جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔دوسری جانب وکلاء کی گرفتاری کے خلاف درخواست بھی لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے اور اگلی سماعت 16 دسمبر کو ہوگی۔
پی آئی سی حملے میں ملوث وکلاء کے خلاف کارروائی کی ہر جگہ سے صدا بلند ہورہی ہے کیونکہ جب تک سزا وجزا کو قانو ن کے تابع نہیں کیاجائے گا،ایسے واقعات جنم لیتے رہیں گے اور یہ خوش آئند بات ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سینئر وکلاء قائدین بھی اس حملے کی نہ صرف مذمت کررہے ہیں بلکہ قانون کے مطابق کارروائی کا بھی مطالبہ کررہے ہیں تاکہ چند افراد کی وجہ سے اداروں پر کوئی انگلی نہ اٹھے اور عام لوگوں کے دل میں اداروں کا احترام رہے۔ سب سے بڑی بات سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سمجھناچاہئے کہ پُرتشدد احتجاج سے کسی طرح بھی اپنے جائز مطالبات منوانے کو حق کا نام نہیں دیا جاسکتا جس سے عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرناپڑے اور قانون کی دھجیاں اڑائی جائیں۔ لہٰذا سیاسی جماعتیں بھی اپنے ورکرز کی بہترین تربیت کرتے ہوئے انہیں تشدد سے دور رکھیں تاکہ یہ رواج ملک میں پروان نہ چڑھے جو تباہی کا سبب بنے۔