|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2019

لاہورپی آئی سی سانحہ ملک کی بدترین واقعات میں شمار ہوچکا ہے کیونکہ ایک ایسے طبقہ نے اسپتال پر حملہ کیا جو قانون کی بالادستی کیلئے خدمات سرانجام دیتا رہا ہے اور جب قانون کے رکھوالے ہی قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے ایسا اقدام کریں جو پوری دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی کا سبب بنے تو یقینا وہ ناقابل برداشت ہے ویسے بھی بڑی بڑی جنگوں میں اسپتالوں کو نشانہ بنانا جنگی قوانین کی خلاف ورزی قرار دی جاتی ہے کیونکہ اس میں نہتے شہریوں اور بیماروں کا علاج ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے وکلاء نے ڈاکٹرزکے ساتھ اپنی جنگ کے دوران اسپتال کو نشانہ بنایا اور اسپتال پر دھاوا بول دیا جس کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے کیونکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسے عمل کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تشدد کا عنصر بڑھتا جارہا ہے،برداشت کا مادہ ختم ہوتاجارہا ہے جب چاہے کسی بھی ادارے پر حملہ آور ہونا یا پھر املاک کو نقصان پہنچانا ایک معمول بن چکا ہے۔

شاہراہوں کو بلاک کرکے عام لوگوں کو اذیت میں مبتلا کرنا، ملک کی معیشت کو جام کرنا، معمولات زندگی کو متاثر کرنا گویا احتجاج میں شامل ہوگیا ہے یعنی کسی بھی پُرتشدد عمل کو اپنا جائز اور قانونی حق سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال ایسی روایات کسی اور نے نہیں بلکہ ہمارے یہاں جمہوریت کے علمبرداروں نے پروان چڑھایا ہے جس کے نتائج آج بھیانک طور پر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلاء کے حملے کو افسوسناک قرار دے دیا۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا سستے انصاف کی فراہمی سے متعلق کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ ایسا واقعہ کاہونا المناک اور بدقسمتی ہے، یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ المناک سانحہ موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے اندر کاجائزہ لیں اور خود احتسابی کریں۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی سی معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، اس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان دونوں پیشوں سے عظیم اقدار وابستہ ہیں اور امید ہے کہ اچھی سوچ ہی غالب آئے گی۔واضح رہے کہ 11 دسمبر کو وکلاء نے لاہور میں دل کے اسپتال پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کیاتھا جس کے نتیجے میں خاتون سمیت 3 مریض بروقت علاج نہ ہونے پر انتقال کرگئے تھے جبکہ اِس حملے میں اسپتال میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی تھی۔پولیس نے اب تک واقعے میں ملوث 83 وکلاء کو گرفتار کیا ہے جبکہ 46 وکلاء جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔دوسری جانب وکلاء کی گرفتاری کے خلاف درخواست بھی لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے اور اگلی سماعت 16 دسمبر کو ہوگی۔

پی آئی سی حملے میں ملوث وکلاء کے خلاف کارروائی کی ہر جگہ سے صدا بلند ہورہی ہے کیونکہ جب تک سزا وجزا کو قانو ن کے تابع نہیں کیاجائے گا،ایسے واقعات جنم لیتے رہیں گے اور یہ خوش آئند بات ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سینئر وکلاء قائدین بھی اس حملے کی نہ صرف مذمت کررہے ہیں بلکہ قانون کے مطابق کارروائی کا بھی مطالبہ کررہے ہیں تاکہ چند افراد کی وجہ سے اداروں پر کوئی انگلی نہ اٹھے اور عام لوگوں کے دل میں اداروں کا احترام رہے۔ سب سے بڑی بات سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سمجھناچاہئے کہ پُرتشدد احتجاج سے کسی طرح بھی اپنے جائز مطالبات منوانے کو حق کا نام نہیں دیا جاسکتا جس سے عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرناپڑے اور قانون کی دھجیاں اڑائی جائیں۔ لہٰذا سیاسی جماعتیں بھی اپنے ورکرز کی بہترین تربیت کرتے ہوئے انہیں تشدد سے دور رکھیں تاکہ یہ رواج ملک میں پروان نہ چڑھے جو تباہی کا سبب بنے۔