افغانستان کے صوبے غزنی میں طالبان کے حملے میں 23 افغان فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔افغان میڈیا کے مطابق طالبان کی جانب سے افغانستان کے مرکزی صوبے غزنی کے ضلع قارا باغ میں حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 23 فوجی ہلاک ہوئے۔
دوسری جانب افغان وزارت دفاع کے ترجمان فواد امن کا کہنا ہے کہ طالبان کے حملے میں 9 فوجی اہلکار ہلاک ہوئے۔افغان وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حکام کی جانب سے حملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ادھر حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ غزنی فوجی بیس پر حملے میں 32 فوجی ہلاک ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق ضلع قارا باغ میں حملہ فوج کے اندر طالبان کے حامی 7 رکنی گروہ نے کیا تھا۔
خیال رہے کہ غزنی کے ضلع قارا باغ میں فوجی بیس پریہ دوسرا حملہ ہے، اس سے قبل رواں برس جولائی میں بھی ضلع قارا باغ کے فوجی بیس کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں افغان آرمی فورسز کے کمانڈر کرنل عبد المبین محبتی ہلاک ہوئے تھے۔یہ حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے کہ کابل پر طالبان اور داعش کے دہشت گردوں کا قبضہ ہے اور حکومت ان کا قلع قمع کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ یہ دہشت گرد جب چاہیں، جہاں چاہیں حملہ کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔ پارلیمان‘ اسپتال‘ فوجی ٹھکانے ان کے حملوں سے محفوظ نہیں۔حکومت ناکام ہوچکی ہے اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت سے قاصر ہے۔
المیہ یہ ہے کہ افغان ملت نے اپنے مسائل خود حل نہیں کیے ان کی نظریں ہروقت امریکا اور نیٹو ممالک کی طرف لگی رہتی ہیں کہ ان کی افواج خطے میں آئیں گی اور افغانستان میں امن بحال کریں گی۔ افغانستان کی صورت حال ہر لحاظ سے انتہائی خطرناک ہے۔ افغانستان میں عالمی فوج کی موجودگی کے باوجود امن وامان کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آرہی جواس بات کا واضح ثبوت ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان کی سیکیورٹی کو سنبھالنے والی قوتیں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کرسکیں بلکہ اس میں مزید شدت دیکھنے میں آرہی ہے جوکہ افغانستان سمیت خطے کیلئے خطرناک ہے۔
افغانستان میں دیرپا امن قائم کرنے کیلئے جب تک افغان قیادت خود فیصلوں میں آزاد نہیں ہوگی تب تک صورتحال میں بہتری کے امکانات نہیں، دیگر ممالک پر سیکیورٹی کے حوالے سے انحصار کے نتائج افغان عوام کافی عرصے سے بھگت رہی ہے اور اس جنگ نے پورے خطے کو بدامنی کی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔حال ہی میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات اس لئے ملتوی ہوئے کہ طالبان کی جانب سے متواتر حملے ہوئے۔
بہرکیف ایک بار پھر مذاکرات کا آغاز ہوچکا ہے مگر لگتا نہیں کہ ان حملوں کے بعد مذاکرات کے بہترین نتائج برآمد ہونگے کیونکہ مذاکرات کی کامیابی کے امکانات اس وقت روشن ہونگے جب پُرتشدد کارروائیوں کوروکاجائے گا اور باقاعدہ جنگ بندی پر عمل کیا جائے گا مگر اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے جس طرح سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں آئے روز حملے ہورہے ہیں۔
امن کی بحالی کی بنیاد جنگ سے گریز ہے مگر بدقسمتی سے دونوں جانب سے طاقت کا بے دریغ استعمال جاری ہے اور اس کا براہ راست نشانہ افغانستان کے شہری بن رہے ہیں جنگ زدہ افغانی اس وقت بڑی تعداد میں دیگر ممالک میں پناہ لئے ہوئے ہیں جس میں پاکستان سر فہرست ہے جہاں پر بڑی تعداد میں افغان مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں جب تک مکمل امن بحال نہیں ہوگا افغان مہاجرین واپس اپنے وطن بھی نہیں جاسکتے اور اس طرح سے پاکستان بھی معاشی، سماجی حوالے سے متاثر ہوتا رہے گا جس کا سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔