|

وقتِ اشاعت :   December 17 – 2019

گزشتہ روز قلات میں گیس کی بندش کے خلاف سیاسی وسماجی حلقوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا، مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس وقت قلات میں گیس مکمل بند ہے، لوگ مجبوراََ نقل مکانی کررہے ہیں، قلات بلوچستان کا سب سے سرد ترین علاقہ ہے جہاں درجہ حرارت منفی بارہ سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ عوام گیس و بجلی کے محکموں کے رحم کرم پر ہیں۔ قلات میں بنیادی مسائل کے حل کیلئے ہم میدان میں نکلے ہیں احتجاجی مظاہرہ، ریلی نکال کر بیانات جاری کئے مگر مسائل جوں کے توں ہیں بارہا احتجاج ریکارڈ کرانے کے باوجودبھی اس پر توجہ نہیں دی جارہی،انہوں نے کہا کہ گرینڈ الائنس نے مسائل کے حوالے سے سیاسی اورقبائلی عمائدین، عوامی نمائندوں اور آفیسران سے جلد ملاقات اور رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا احتجاج حقوق کے حصول اور مسائل کے حل تک جاری رہے گا، ہفتہ وار احتجاجی مظاہرہ کرکے احتجاج ریکارڈ کرائینگے، اگلے اجلاس میں قومی شاہراہ پر پہیہ جام اور شٹرڈاؤن کے حوالے سے مشاورت کرکے احتجاج کو مزید وسعت دینگے۔

بلوچستان میں شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو جو یہاں کے عوام کوکوئی ریلیف فراہم کر رہا ہو۔بلوچستان کے ساتھ ناروا طرز حکمرانی کی طویل تاریخ ہے،یہاں کے و سائل کے سوا وفاق اور وفاقی ادارروں کی دلچسپی کامرکز بلوچستان کبھی رہا ہی نہیں، یہاں کے وسائل سے وفاق براہ راست فائدہ اٹھارہاہے لیکن یہاں کے لوگ کس حال میں جی رہے ہیں یا مر رہے ہیں، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔وفاق اور کمپنیاں صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتے آئے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ جہاں اربوں روپے کافائدہ اٹھایاجارہا ہے انہی علاقوں میں انسانی فلاح پر بھی کچھ رقم خرچ کی جائے، لیکن ایسا کرنے کے لیے انہیں کون پابند کرے کیونکہ طاقت اور اختیار تو انہی کے پاس ہے، یہاں سے صرف التجا ہی کی جاسکتی ہے جو گزشتہ ستر سالوں سے کی جارہی ہے مگر حکومتوں اور کمپنیوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ہاں دکھاوے کے لیے بلوچستان کی محرومیوں کے خاتمے کے دعوے ہر دور میں کئے گئے،پورے ملک کو گیس مل گئی مگر بلوچستان کے بیشتر علاقوں کو گیس آج بھی میسر نہیں، کسی بھی وزیراعظم کو یہ دلچسپی کبھی بھی نہیں رہی کہ ان علاقوں کو گیس فراہم کی جائے۔

سوئی گیس سے پاکستان نے 400 ارب ڈالر کی بچت کی ہے،اگر سوئی گیس نہ ہوتی تو پاکستان کو تیل درآمد کرناپڑتا جس پر 400 ارب ڈالر کا اضافی بوجھ پڑتا یعنی سوئی گیس نے گزشتہ ساٹھ سالوں میں کئی اربوں ڈالر کا معاشی اور مالی فائدہ پہنچایا مگر اس کے بدلے بلوچستان کو کیا ملا۔آج بھی بلوچستان کے سرد علاقے جہاں گیس دستیاب ہے تو وہاں پریشر بالکل ہی نہیں اور ساتھ ہی طویل لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بلوچستان کے حوالے سے پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے نئی حکومت بلوچستان کو اس کا جائزمقام اور حق دے تاکہ بلوچستان کے عوام کم ازکم بنیادی سہولیات سے محروم نہ رہیں۔بلوچستان کے سرد علاقوں میں گیس کی اشد ضرورت ہے یہاں خون جمادینے والی سردی پڑتی ہے مگر جیسے ہی موسم سرما کا آغاز ہوتا ہے گیس غائب ہوجاتی ہے۔

بلوچستان کے بڑے شہروں میں عوام گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے شدید سردی میں مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جبکہ خواتین کو گھریلوکام کاج کے دوران شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کوئٹہ جو بلوچستان کا دارالخلافہ ہے یہاں آئے روز گیس پریشر کی کمی کے خلاف خاص کر خواتین سڑکوں پر احتجاج کرتی دکھائی دیتی ہیں مگرکسی پر اس کا اثر ہی نہیں پڑتا۔ خدارا بلوچستان کو گیس کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ایوان میں بیٹھے عوامی نمائندگان اپنا کردار ادا کریں کیونکہ عوام نے انہیں ووٹ دیکر ایوان تک اس لئے پہنچایا ہے کہ وہ ان کے مسائل کو حل کریں اور گیس کمپنی کو بھی اس کا پابندبنایاجائے کہ بلاوجہ گیس لوڈشیڈنگ سے گریز کرے اور لوگوں کو راحت فراہم کرے۔