|

وقتِ اشاعت :   December 18 – 2019

بلوچستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہاں اکثر مخلوط حکومت بنتی آئی ہے۔ ایسی صورت میں نظام کی بہتری کی گنجائش کم ہی رہتی ہے کیونکہ پھر شخصی مفادات زیادہ اہمیت اختیار کرتے ہیں۔ پنجاب،سندھ اور کے پی کے کی نسبت بلوچستان میں سیاسی ڈھانچہ یکسر مختلف رہا ہے۔ بلوچستان کے اسی سیاسی کلچر نے پسماندگی اور کرپشن کو دوام بخشااور اس طرح صوبہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہا۔اگر ستر سالہ تاریخ کے دوران ترقیاتی اسکیموں کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ ترقیاتی فنڈز شخصیات کی خواہشات کے مطابق خرچ کئے گئے اور عوامی مفادات اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی کام نہیں ہوا جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان آج بھی بیروزگاری کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں سے شدید مایوس ہوگئے ہیں۔

کسی بھی معاشرے کی ترقی اور بہتری میں کلیدی کردار سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے جو ایک فکر ونظریہ کے تحت عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا منشور بناتے ہیں اور اس پرعمل کرتے ہیں۔گزشتہ روز گنداوامیں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ میں تبدیلیوں کا میں نے بھی صرف سنا ہے، صوبے کے فنڈز وفاق کو منتقل کرنے کی باتیں بے بنیاد ہیں،بلوچستان کے تمام انٹر کالجز کو ڈگری کا درجہ دینے جارہے ہیں۔صوبے کے ہر ضلع میں تین سے ساڑھے تین ارب کے ترقیاتی کام جاری ہیں،اڑھائی ارب کی لاگت سے گنداوا توتال سڑک کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے،صوبے میں اڑھائی ہزار کلو میٹر سڑکیں بنائی جارہی ہیں،وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا کہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حکومت نے پسند نا پسند کے بجائے صوبے کے تمام اضلاع کو ان کی ضروریات کے مطابق اسکیمیں دی ہیں، ماضی میں پسند نا پسند کی بناء پر مختلف اضلاع میں اسکیمیں دی گئیں جن سے بہت سے علاقے ترقی سے محروم رہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں ایسے حلقے بھی ہیں جہاں سے بی اے پی یا اتحادیوں کے منتخب نمائندے نہ ہونے کے باوجود بھی ہم نے وہا ں اسکیمیں دی ہیں،ہم لوگوں کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہمارے کام دیکھ کر نظریات تبدیل کریں ہم بلوچستان کو حقیقی ترقی دینا چاہتے ہیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سمیت دیگر وزراء اعلیٰ بھی یہی بات دہراتے آئے ہیں کہ بلوچستان کے تمام اضلاع میں یکساں ترقی ہمارا وژن ہے مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں جس طرح ترقیاتی کام ہونے چاہئے تھے وہ دیکھنے کو نہیں ملتے، صوبہ میں اب تک پانی کا بحران برقرار ہے باوجود اس کہ کچھی کینال جو کہ دس سال سے زائد پرانا منصوبہ ہے آج تک تعطل کا شکار ہے۔

اسی طرح کوئٹہ شہر کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے مانگی ڈیم کی بنیاد رکھی گئی مگریہ منصوبہ کہاں تک پہنچا، عوام اس سے بے خبر ہے۔ بلوچستان میں قحط کا مسئلہ ہر وقت سر اٹھاتا رہتا ہے اوربعض اضلا ع اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جس سے لوگ اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرنے پرمجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ بلوچستان میں آمدنی کا بڑا ایک ذریعہ زراعت ہے،پانی بحران کی وجہ سے یہ شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔کوئٹہ کے نواحی علاقوں کو دیکھا جائے جہاں زرعی زمینیں تھیں اب وہاں کنسٹرکشن کاکاروبار شروع ہوچکا ہے جس کی ایک بڑی وجہ پانی کا بحران ہے اس لئے ضروری ہے کہ بلوچستان میں آبی قلت کے خاتمہ کیلئے جو منصوبے موجود ہیں انہیں مکمل کیاجائے تاکہ صوبہ میں زرعی شعبہ کو ترقی مل سکے۔