آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس 221 فیصد مہنگی کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔اوگرا نے یکم جنوری سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز وزارت پٹرولیم کو ارسال کر دی ہے۔سمری میں سوئی ناردرن سسٹم پر گیس کی اوسط قیمت میں 82 روپے اور سوئی سدرن کے لیے 24 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ اوگرا نے روٹی تندوروں کے لیے گیس 221 فیصد، کمرشل سیکٹر کے لیے 31 فیصد اور فرٹیلائزر سیکٹر کے لیے 153 فیصد تک مہنگی کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔اس سے قبل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا،پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔اسی طرح دواؤں کی قیمتوں میں چندماہ کی مختصر مدت میں بے تحاشا اضافہ کیا گیاجس سے ادویات غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں۔ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان امڈ آیا ہے۔ پٹرول اور گیس کے بعد بجلی کی قیمتیں بھی مہنگی کر دی گئیں تھیں۔
حکومت عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں اور دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی لیکن مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے سے قبل عوام کو ریلیف دینے کے وعدے کرتی ہے اور یہی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے بھی کیا گیا لیکن پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اشیا ء کی قیمتیں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔47 ہزار تولہ پر موجود سونے کو تو جیسے پر ہی لگ گئے سونے کی قیمت بھی بڑھتی جارہی ہے جس سے عام لوگوں پر اس کا برائے راست اثر پڑرہا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے جس نے متوسط طبقے کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے فوراً بعد ہی اشیا ء خوردنوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوجاتاہے،اسی طرح ادویات کی قیمتوں میں 100 سے 200 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔جان بچانے والی ادویات 399 روپے تک مہنگی ہوئیں تو امراض قلب کی دوا میں بھی 317 روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔شوگر کو کنٹرول کرنے والی ادویات کی قیمت میں 272 سے 460 روپے تک کا اضافہ ہو گیا، اسی طرح ٹی بی کی دوائی میں بھی 204 روپے کا اضافہ ہوا۔گلے کی دوائی ایتھروسن کی قیمت 548 روپے سے بڑھا کر 921 روپے کی گئی تو دوسری طرف سر درد کی گولی ڈسپرین کی قیمت میں بھی 27 روپے کا اضافہ کیا گیا۔
اس حوالے سے کسی طرح کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے کہ عوام کو کسی صورت ریلیف مل سکے، ریلیف محض کاغذی دعوؤں اور اعلانات تک محدود ہوتاہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام اس بوجھ کوبرداشت نہیں کرپاتے۔ملک میں بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے، ایک خاندان میں بمشکل ایک دو افراد برسرِ روزگار ہوتے ہیں جن کیلئے گھر چلانا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور اس سے غریبوں کے بچوں کا مستقبل بھی شدید متاثر ہوتا ہے جو اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دینے کی بجائے گھر کی آمدن بڑھانے کیلئے انہیں کم عمر ی ہی میں مزدوری پر لگادیتے ہیں۔ اس وقت ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جینا محال کیا ہے عام لوگوں کو دووقت کی روٹی بھی بہ مشکل نصیب ہورہی ہے کیونکہ مہنگائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ گوشت کھانے والے سبزی پرآگئے ہیں جبکہ غریب عوام سبزی سے بھی رہ گئے ہیں، اوپر سے اور آئے روز انہیں تسلیاں دی جاتی ہیں کہ معیشت بہترسمت میں جارہی ہے مگر عام لوگوں کی زندگی میں اس بہترہونے والی معیشت سے کوئی آسانی نہیں آرہی،ان کے لیے تو جینا محال ہوچکا ہے۔لہٰذا حکومت غریب عوام کو ریلیف دینے کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے اور مہنگائی روکنے پر خصوصی توجہ دے اور ہر مہینے بجلی، گیس، پٹرول، ادویات اور دیگر اشیاء کی قیمتوں کو بڑھانے سے گریز کرے کیونکہ ان کی قیمتیں پہلے ہی بہت زیادہ بڑھائی جا چکی ہیں، ان میں مزید اضافہ حکومتی بے حسی میں شمار ہوگاجس سے عوام مزید مہنگائی کی چکی میں پس جائینگے اور ان کی مایوسیوں میں مزید اضافہ ہوگا جو کوئی بھی رخ مڑ سکتا ہے۔