|

وقتِ اشاعت :   December 21 – 2019

شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بھارت بھر میں احتجاج جاری ہے، پولیس کی فائرنگ سے مزید 3 مظاہرین ہلاک ہو گئے ہیں۔کرناٹکا، اْتر پردیش، بنگلورو اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں پابندیاں شہریوں کو احتجاج سے نہ روک سکیں، دہلی کے لال قلعہ، حیدر آباد اور تلنگانہ سے مظاہرین کو پولیس نے حراست میں لے لیا جبکہ معروف بھارتی مورخ اور دانشور رام چندر بھی احتجاج کے دوران گرفتار ہو گئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست کرناٹکا کے شہر منگلور میں پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی لیکن اس کے باوجود مظاہرین کا احتجاج جاری رہا تو پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔ منگلور میں کرفیو نافذ جب کہ انٹرنیٹ سروس معطل ہے، آسام میں 21 دسمبر سے بند انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر بحال کر دی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق بھارتی شہر لکھنؤ سمیت اُتر پردیش کے متعدد شہروں میں بھی انٹرنیٹ اور میسجز سروس بند ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی میں احتجاج مارچ کے پیشِ نظر انتظامیہ نے 2 میٹرو اسٹیشنز بھی بند کردیئے ہیں۔اسی ضمن میں وزیراعلیٰ مغربی بنگال ممتا بنرجی نے اقوام متحدہ اورانسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے متنازع ایکٹ پرریفرنڈم کرانے کامطالبہ کیا ہے۔شہریت کے متنازع قانون کے خلاف لالوپرساد کی سیاسی جماعت راشٹریہ جنتا دل نے کل بہار میں ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی بھی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بول پڑیں، سوشل میڈیا پیغام میں اداکارہ نے حکومت کو مظاہرین کو روکنے کے بجائے ان کی بات سننے کا مشورہ دیا۔دوسری جانب اداکار فرحان اختر بھی مظاہرین کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے اور اس دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کرنا کافی نہیں ہے، شہری سڑکوں پر نکلیں اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں۔متنازع شہریت بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کروایا گیا تھا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دی تھی۔بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا تھا۔

،متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔بھارت میں اب بھی بعض شہروں میں بل کے خلاف شدید احتجاج جاری ہے اور یہی مطالبہ کیاجارہا ہے کہ مودی سرکار اس متنازعہ بل کو واپس لے جو کہ کسی کے مفاد میں نہیں مگر دوسری جانب یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ بھارت میں اس وقت ایک ہندوانتہاء پسندکی سرکار ہے جس کا مقصد اقلیتوں کو کچلنا ہے اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیریوں کے تمام حقوق سلب کئے گئے، آج تک مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اسی انتہا ء پسند سوچ کو قانون کی شکل میں پورے ہندوستان پر مسلط کیاجارہا ہے جس کا مقصد اقلیتوں کو تمام حقوق سے محروم کرنا ہے۔ بھارتی سرکار کے تمام عزائم کھل کر سامنے آرہے ہیں کہ مودی درحقیقت چاہتا کیا ہے،وہ ہندوستان کو مکمل طورپر ایک انتہاء پسند ریاست میں تبدیل کرنا چاہتا ہے البتہ ملک کے اندر سے مزاحمت اٹھ رہی ہے اور یہ آگ کے شعلے بھارت کیلئے آگے چل کر بہت بھیانک ثابت ہونگے جس کی واضح مثال بھارت میں حالیہ شدید احتجاج اور مودی سرکار کے خلاف غم وغصہ ہے۔