بلوچستان اسمبلی اراکین نے طلباء یونینز کی بحالی کے حوالے سے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ طلباء یونینز جمہوری رویوں کو پروان چڑھانے میں کردار ادا کرتی ہیں، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو قیادت طلبہ سیاست سے ہی ملی ہے، یونینز ہی سے لیڈرشپ پیدا ہوتی ہے اگر اس جمہوری عمل کو ختم کیا جائے گا تو طلباء ذہنی طورپر مفلوج ہوجائیں گے۔
گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ طلباء وطالبات کسی بھی ترقی پذیر اور ترقی یافتہ معاشرے کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور مستقبل کی ذمہ داریوں کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ طلباء وطالبات کے احساسات، خواہشات اور معاشرتی و معاشی معاملات سے متعلق نقطہ نظر طلباء یونینز کے قیام و موثر کردار کے باعث ممکن ہے۔ اس لئے صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ صوبہ سمیت ملک بھر میں طلباء یونینز کی فوری طو رپر بحالی کو یقینی بنائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اگرچہ ایک طرف پسماندہ صوبہ ہے مگر دوسری طرف یہ اس حوالے سے انتہائی خوش نصیب بھی ہے کہ ہر دورمیں بلوچستان نے بڑے لوگوں کو جنم دیا، ماضی میں علی گڑھ میں بلوچستان کے طلبہ نے جا کر اپنی علمیت اور قابلیت کے جھنڈے گاڑھے،طلبہ نے انگریز سامراج کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔ میر غوث بخش بزنجو، یوسف عزیز مگسی، باچاخان اور خان شہید کے رفقاء جنہوں نے آگے چل کر انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا، ان میں اکثریت ان طلباء کی تھی جو طلباء سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔
آج دنیا کے جن ممالک نے ترقی کی ہے ان کو بھی طلبہ سیاست سے آگے آنے والی قیادت کے باعث ترقی ملی ہے چند گنے چنے لوگوں کو کہیں سے اٹھا کر لیڈر بنانے سے ملک ترقی نہیں کرسکتا، طلبہ سیاست سے شعوری، فکری اورنظریاتی تربیت حاصل کرنے والے طلباء ہی اچھے سیاستدان اور لیڈر بنتے ہیں،طلبہ سیاست میں شریک ہو کر اور تربیت پاکر ہی اچھے سیاستدان بنتے ہیں۔
بلوچستان کے منتخب نمائندوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ بلوچستان کی سرزمین نے ہمیشہ جمہوریت اور ترقی پسند سیاست کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے تاریخ گواہ ہے کہ بلوچستان کی زرخیز زمین نے ایسے زیرک سیاستدان پیداکئے جن کی پرورش طلباء تنظیموں نے کی اور موروثی سیاست کو ہمیشہ چیلنج کیا جس کے نتیجے میں روایتی اور افراد کے گرد گھومتی سیاست پروان نہیں چڑھی جس کی وجہ طلبہ تنظیموں کے اسٹڈی سرکل ہیں جہاں جدیدیت سے آراستہ ہوکر سائنسی علوم کی طرف نوجوانوں کو مائل کیا جاتا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں تبدیلی لانے کیلئے نوجوانوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں طلبہ تنظیموں کے اندر تشدد کا عنصر انتہاء پسند قوتوں نے ڈالا مگر ترقی پسند طلباء تنظیمیں ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی رہیں۔ بلوچستان میں انہی طلبہ تنظیموں کے قائدین وزراء اعلیٰ سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز رہے جبکہ دیگر شعبوں میں بھی ان کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
طلبہ تنظیموں پر پابندی نوجوان نسل کو ترقی سے روکنے کے مترادف ہے لہٰذا تشدد اور انتشار پھیلانے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کیاجائے ناکہ طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کرکے روشن مستقبل کو تاریک کیاجائے۔ بہرحال بلوچستان اسمبلی نے ایک تاریخ رقم کرتے ہوئے صوبہ میں طلبہ تنظیموں کی بحالی کے حوالے سے قرار داد پاس کرکے نوجوان نسل کیلئے نئے راستے کھول دیئے ہیں جس سے صوبہ کا مستقبل تابناک ہوگا۔
Yaseen Muhammad Shahi
سلامت ماریس واجہ ثناءبلوچ ❤