|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2019

ملک بھرمیں گیس بحران بھی شدت اختیار کر تاجارہا ہے۔گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جس سے روز مرہ کے معمولات بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں،گھریلواورکمرشل صارفین کو شدید مشکلات کا سامناکرناپڑرہا ہے۔بلوچستان میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی گیس غائب ہوجاتی ہے جبکہ گیس پریشر کا مسئلہ بدستور برقرار رہتا ہے جس کی وجہ سے اموات ہوتی ہیں مگر افسوس کہ سوئی گیس حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

گزشتہ کئی برسوں سے بلوچستان کے سرد علاقوں میں گیس کی کمی کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں جنہیں حل کرنے میں سوئی گیس حکام سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔اس مسئلہ پر بلوچستان کی حکومت واپوزیشن اراکین بھی متعدد بار اپنا احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں بلکہ یہ مطالبہ بھی بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں سامنے آیا کہ سوئی گیس کے ہیڈکوارٹر کو بلوچستان منتقل کیا جائے کیونکہ سوئی گیس بلوچستان سے دریافت ہورہی ہے جبکہ اس کا ہیڈکوارٹر کسی اور صوبہ میں ہونا بلوچستان کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے،ان کی شکایات کا ازالہ بھی نہیں کیا جاتا، بہرحال یہ ناروا سلوک بلوچستان کے ساتھ کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔

گزشتہ چند دنوں سے ملک بھر میں گیس کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے، سوئی ناردرن گیس حکام کے مطابق پنجاب میں جنرل انڈسٹری اور سی این جی سیکٹر کو گیس کی فراہمی بند کر دی گئی ہے تاہم گھروں میں گیس پریشر تاحال بہتر نہیں ہوسکا۔سوئی نادرن حکام کا کہنا ہے کہ گھریلو صارفین کے لیے گیس کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔راولپنڈی کے اکثر علاقے بھی سوئی گیس کی دستیابی سے محروم ہیں اور کہیں گیس بالکل غائب ہے تو کہیں پریشر اتنا کم ہے کہ کھانا پکانا بے حد مشکل ہے۔خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بھی سردی بڑھتے ہی سوئی گیس لوڈشیڈنگ کے معاملے نے سر اٹھا لیا ہے۔گیس لوڈشیڈنگ کے باعث خواتین کو گھروں میں کھانا پکانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں جب کہ تندور مالکان اور ہوٹلز سمیت مختلف کمرشل صارفین بھی مشکلات سے دوچار ہیں۔

سوئی گیس حکام کا کہنا ہے کہ سردی میں گیس کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے گیس میں کم دباؤ کا مسئلہ پیش آتا ہے تاہم گیس کا مسئلہ جلد حل کر لیا جائے گا۔ کے پی کے میں پشاور کے علاوہ دیگر شہروں ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں بھی گیس لوڈشیڈنگ اور پریشر میں کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔گزشتہ دنوں کراچی میں بھی چند روز تک سی این جی اسٹیشن بند ہوگئے تھے جنہیں 3 روز بعد کھولا گیامگر اب بھی شہر کے مختلف علاقوں میں گیس پریشر میں کمی کا مسئلہ برقرار ہے۔

شہر بھر میں سی این جی اسٹیشنز کے باہر گیس بھروانے کے لیے گاڑیوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں، 3 روز سی این جی گیس کی بندش کے بعد اچانک رات 11 بجے سی این جی اسٹیشنز کو گیس فراہمی کا اعلان کیا گیا جس کے بعد پرائیویٹ گاڑیوں، رکشہ اورٹیکسی کے ڈرائیور گیس بھروانے کے لیے قطار بناکراپنی باری کا انتظار کرتے رہے۔سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی عدم فراہمی سے متعلق انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گیس پریشر میں کمی کی وجہ سے سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی معطل کردی گئی تھی۔

دوسری جانب سی این جی بند ہونے کی وجہ سے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی کمی واقع ہوئی۔ اس صورتحال میں شہریوں نے مجبوراً بسوں کی چھتوں پر سفر کیا یا پھر اضافی کرایہ دے کر رکشہ یا ٹیکسی میں سفر کیا۔سی این جی اسٹیشنز کی بندش کے باوجود کراچی میں گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی میں جزوی تعطل کا سامنا ہے اور پریشر بھی انتہائی کم ہے۔ وفاقی حکومت اس کا نوٹس لیتے ہوئے بلوچستان سمیت ملک بھر میں گیس کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے سوئی گیس حکام کی سرزنش کرے تاکہ لوگوں کو شدید سردی میں گیس کی فراہمی کا مسئلہ حل ہو۔کمپنیوں کا مقصد صرف منافع کمانا نہیں بلکہ صارفین کو بہتر سہولیات بھی فراہم کرنا ہے۔