|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2019

اسلامی جمہوریہ پاکستا ن کو آج تک کوئی ایسا حکمران نصیب نہیں ہوا جو حکمرانی کے معیار پر پورا اترتا ہو۔اس طویل عرصے میں صرف ایک شخص جس کو دنیا بھٹو کے نام سے جانتی ہے نے ملکی عوام کو توقیر بخشی۔بھٹو صاحب اگرچہ سوشلزم کے قریب مانے جاتے تھے مگر ان کا حلقہ یاراں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں پر مشتمل تھا گوکہ بھٹو صاحب خود بھی جاگیردار تھے مگر ان کی کچھ ادائیں عوام کو بھا گئیں۔

کوئی مانے یا نہ مانے یہ بھٹو صاحب ہی تھے جو امیروں کی چمڑی سے غریبوں کو جوتا فراہم کرنے کا مژدہ سناتے تھے۔ ان سب خوبیوں کے باوجود بھٹو صاحب بلوچستان کے لیئے پاکستان کے روایتی حکمران ثابت ہوئے،بلوچستان میں فوج کشی کا سہرا بھٹو کو جاتا ہے۔بھٹو پہلے غیر فوجی حکمران تھے جنہوں نے بلوچستان پر لشکر کشی کی۔ بھٹو کے بعد جوبھی حکمران آیا ان کی طرز حکمرانی بلوچستان کے لیئے جارحانہ رہا۔ صوبے میں پہلی بار 1988میں بی ایس او کے پلیٹ فارم سے تربیت پانے والے نوجوان شریک اقتدار بنے، انہی میں ڈاکٹر مالک بلوچ بھی ایک تھے جو اس وقت آنکھوں کے ڈاکٹر تھے۔ ڈاکٹر مالک کا صل کارنامہ 2013کے الیکشن جیتنے کے بعد کا ہے۔شہر تربت اگر کسی نے 2013سے پہلے دیکھا تھا اور ان کا اب تربت آنا ہو تو یقینا وہ داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔

تربت دراصل کھنڈرات کا نمونہ تھا، یہاں سڑکیں اپنی جگہ،رستوں کے نشانات تک نہ تھے۔تربت کے قرب و جوار میں اگر کسی کو کہیں جانا ہوتا تو آمدورفت کے لیئے جیپ یا موٹر سائیکل استعمال کیا جاتا،ہلکی گاڑیوں کے استعمال کا تصور بھی محال تھا لیکن ڈاکٹر مالک جب اقتدارمیں آئے اور انتہائی مختصر مدت میں جس برق رفتاری سے بلوچستان کو ترقی دی، ناقدین داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔

ان کے ذہن میں تربت کے لیئے ماڈل سٹی کا جو نقشہ ابھرا تھا انہوں نے اس پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کی، اس منصوبے میں تربت کے لیئے بڑی شاہراہیں،خوبصورت پارک، نئی بستیوں کا قیام،نکاسی آب، آبنوشی کے نئے سائنسی ذرائع، کار پارکنگ، شاپنگ مال، مساجد، کھیل کے میدان، ریسٹ ہاؤسز، بس ٹرمینل، سبزی مارکیٹ، صنعتی علاقوں مثلا موٹر گیراج اور مستریوں کو شہر سے باہرجگہ کی فراہمی، شہر میں کئی گھنٹہ گھرسمیت غرض شہر تربت کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کا ایک مستقل منصوبہ تھا جس پر کافی حد تک عمل درآمد ہوسکا مگر کئی منصوبے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے۔

تربت کاایئر پورٹ روڈ ملک کے اعلیٰ ترین شاہراہوں میں شمار ہوتا ہے، شہر میں کئی خوبصورت پارک بھی مکمل ہوئے، عالی شان ریسٹ ہاؤس، بسوں کا خوبصورت ٹرمینل جس میں بنک، شاپنگ سینٹرگویا دور جدید کی تمام تر سہولیات سے آراستہ مختصر مدت میں مکمل ہوئے لیکن شاہراہوں اور نئی بستیوں کے جو خاکے اور کئی مارکیٹیں، اندرون شہر ندی نالوں کے ساتھ کئی پل جن کی منظوری دی جاچکی تھی بن نہ ہوسکے، کیوں کہ ڈاکٹر مالک حکومت کا دورانیہ مختصر تھا لیکن اس کم عرصے میں جو کام ہوئے وہ مثالی ہیں۔جبکہ موجودہ حکومت سے یہ توقع رکھنا کہ باقی ماندہ منصوبوں کو مکمل کر کے شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرے گی خوش گمانی ہوگی۔

اہل کیچ بے چین ہیں کہ تربت کی رعنائی کے لیئے ڈاکٹر مالک نے جو منصوبہ بندی کی تھی وہ کب اور کس طر ح پورے ہوں گے۔اب اہل کیچ کو پورا پورا یقین ہے کہ یہ منصوبے بجز ڈاکٹر مالک کے کوئی اور پایہ تکمیل نہیں پہنچا سکتا۔کیچ کے مکین اس انتظار میں ہیں کہ کب نئے الیکشن ہونگے اور ڈاکٹر مالک اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا ئیں گے کیوں کہ ڈاکٹر مالک تو کیچ ہیں کیچ کا کیچ میں کون مقابلہ کرسکتا ہے۔