سیاست درباں سے ڈر گیا

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ دنیا کے مایہ ناز ترقی یافتہ ممالک ایک دور میں بڑی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن وہاں جان ایف کینڈی اور لوتھر کنگ جیسے انسان پیدا ہوئے تو تاریکی چٹ گئی اور ہر سو اجالا بکھر گیا۔ یہودیوں اور کافروں کے ملک میں جانوروں تک کی مکمل حفاظت کی جاتی ہے ہاں یہ بات نہیں کہ وہاں حادثات نہیں ہوتے لیکن ان کا ردعمل بھی دیدنی ہوتا ہے۔ مملکت خداداد کی بھاگیں ایسے لوگوں نے تھامیں ہیں یا انہیں تھما دی گئیں ہیں جنہیں منزل کا علم نہیں ۔

بن گوریان

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ملکی سیاست کے ہوشربا اور پر کیف دھنیں سن سن کر کان پک گئے ہیں یہ ٹکنالوجی کا دور ہے اونٹ اور خچر کا زمانہ گزر چکا ،آج دنیا کے ایک سرے پر جو واقعہ رونما ہوتی ہے لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے سیاستدان اب بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں جو نصف صدی پہلے پاکستانی عوام سنتے آرہے ہیں ایسے دلفریب نعرے لگانے والوں میں صوبہ بلوچستان کے لیڈر کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔بلوچستان میں دو انواع کے لیڈر پائے جاتے ہیں ایک طبقہ سرداراور نواب اور دوسرا خود کو قوم پرست کہتا ہے یہ دونوں طبقے قوم دوست نہیں ہیں نوابوں اور سرداروں کے علاقوں میں کہیں ڈھنگ کا کوئی اسکول یا اسپتال نظر نہیں آتا۔ ایسے کئی سردا راور نواب ہیں جو تین پشتوں سے اقتدار کے گھوڑے من کے مطابق دوڑاتے رہے لیکن ان کے علاقوں میں کوئی ڈسپنسری بھی نظر نہیں آتی۔یہ دونوں طبقے یعنی سردار نواب اور قوم پرست ہمیشہ مقتدرہ پر میزائلیں برساتے تو ہیں لیکن اصل میں دونوں مقتدرہ کے برخوردار ہیں ان دونوں طبقوں کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں شعور ان کا بڑا دشمن ہے ان کو فکر دامن گیرہے کہ شعور آگیا تو یہ سلسلہ نہیں چلے گا،اس لیے ہمیشہ الیکشن کے قریب آتے ہی عوامی مسیحا بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سنجیدہ فکر رکھنے والوں کی طرف سے انہیں دھیرے سے ہی صحیح لیکن سر گوشیوں میں سنائی ضرور دیتا ہے

سراب

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

مملکت خداداد میں بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں مسند اقتدار پر ہمیشہ وہ لوگ براجمان ہوئے ہیں جن کا عوام سے کوئی تعلق ہی نہیں اور نہ انہیں عوامی اور سماجی مسائل سے دلچسپی رہی ہے ۔یہ ہمیشہ اپنے مفادات کا خیال رکھتے آرہے ہیں، سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر وقت سائیبریا کے پرندوں کی طرح موسم کو دیکھ کر آشیانے بدلتے رہے اور انہیں یہ حرکت کرتے ہوئے خفیف سی خفت بھی محسوس نہیں ہوتی۔

چالاکیاں

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

اہل علم و ادراک چاہے ان کا تعلق کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے ہو اس بات پر متفق ہیں کہ ملکی نیتاؤں کو عوام سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، جو بھاشن یہ جلسے جلوسوں میں دیتے ہیں سب کزب عظیم ہیں، یہ اپنے مفاد کی خاطر خوب صورت جالیں بننے کے ماہر ہیں۔ ملکی تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو کبھی بھی ایسا موڑ نہیں آیا جہاں حکمران طبقہ نے عوامی مفادات کی خاطر جلسے جلوس کیے ہوں۔

عزم سے عاری سیاست

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

دستیاب تاریخ میں بلوچستان کا جغرافیہ ہمیشہ مدوجزر کی زد میں رہا ہے لیکن پچھلے ستر برسوں میں یہ سرزمین تاریکی کے آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ یہ کارنامہ بھی انہی لوگوں نے انجام دئیے ہیں جو ہمیشہ خوشحال بلوچستان کے گن گاتے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لوگ جو دائمی طورپر بلوچ کی زندگی کو بدلنے کی راگ الاپتے رہے ہیں ماسوائے اپنے اور اپنی اولادوں کے جائیدادوں میں بے پناہ اضافے کے اور کچھ نہ کیا۔ بلوچستان میں کئی سیاسی پارٹیاں ہیں جو ہمیشہ وفاقی حکومت کے تابع رہی ہیں۔ وفاق میں جس کی حکومت آتی ہے۔

منظرنامہ

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ملک میں ہمشیہ سیاسی پارٹیاں ہی خود کو عوامی مسیحا گردانتی ہیں اور خود کو عوامی مفادات اور عوام کی بھلائی کا محافظ پیش کرتی ہیں لیکن ساٹھ کے عشرے کے عوام اور آج کے عوام میں ارض و سما کا فرق ہے۔اہل ملک کو اچھی طرح علم ہے کہ سیاسی پارٹیاں صرف اور صرف اپنے آور اپنی رفیقوں کی مفادات کی نگہبان ہوتی ہیں اس میں عام لوگوں کی بھلائی کے لیئے کوئی منصوبہ ہی نہیں ان کا منزل عوامی خدمت نہیں صرف اقتدار ہوتا ہے یہ عوامی خدمت کے جذبے سے بالکل عاری ہوتی ئاس لیئے اب عوام میں ان کی پزیرائی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ان کے لیئے سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ یہ عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے کبھی اکھٹے نہیں ہوتے یہ صرف اپنے مفادات اور اپنے حواریوں کے فائدے کا سوچتے ہیں۔ ملکی سیاست میں سب سے تکلیف دہ سیاست بلوچستان کی ہے۔

دریچے۔

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

مکران کا صدر مقام تربت جہاں تمام انتظامی افسران کے دفاتر ہیں انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بشمول کمشنر مکران کا دفتر بھی تربت میں ہوتا ہے۔ بلوچستان میں کوئٹہ کے بعد تربت صوبے کا سب سے بڑا شہرہے۔ ایک حلقے کاکہنا ہے 2013 کے الیکشن کے بعد ڈاکٹر مالک بلوچ نے تربت کو کوئٹہ کے برابر کا کھڑا کردیا ہے۔ ویسے ڈاکٹر مالک بلوچ نے جس سرعت کے ساتھ تر بت کا نقشہ تبدیل کیا اس ملک میں بہت کم ایسا ہوا ہے۔ مالک بلوچ نے صرف ڈھائی سالہ دور وزارت میں شہر تربت کو نو رونقیں بخشیں مثالی ہیں یہ وہ عوامی تحائف ہیں جو مالک بلوچ نے اپنے دور وزارت میں مکران کے عوام کو دیئے۔

ماڈل سٹی تربت

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

اسلامی جمہوریہ پاکستا ن کو آج تک کوئی ایسا حکمران نصیب نہیں ہوا جو حکمرانی کے معیار پر پورا اترتا ہو۔اس طویل عرصے میں صرف ایک شخص جس کو دنیا بھٹو کے نام سے جانتی ہے نے ملکی عوام کو توقیر بخشی۔بھٹو صاحب اگرچہ سوشلزم کے قریب مانے جاتے تھے مگر ان کا حلقہ یاراں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور وڈیروں پر مشتمل تھا گوکہ بھٹو صاحب خود بھی جاگیردار تھے مگر ان کی کچھ ادائیں عوام کو بھا گئیں۔

آپ نے بدلا ہے فقط مے خانے کا نام

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ملکی تاریخ میں وطن عزیز کی سیاسی افق پر مطلع کھبی بھی صاف نہیں رہا بلکہ بارہا قہر آلود ،زہر آلود اور یہاں تک کہ خون آلود بھی رہا ۔ملکی حکمران طبقہ جو چند گنے چنے جانداروں پر مشتعمل ہے باریاں بدلتے رہے ہیں۔ سیاسی منظر نامہ پر نظر رکھنے والوں کو یہ تاریخی جملہ نہیں بھولے گا کہ اُدھر تم اِدھر ہم اور اب وقت کے ساتھ ساتھ اس مشہور جملے کو ذرا رد و بدل کے ساتھ یوں پڑھیئے کہ کھبی تم اور کھبی ہم ۔