|

وقتِ اشاعت :   August 21 – 2020

ملک میں ہمشیہ سیاسی پارٹیاں ہی خود کو عوامی مسیحا گردانتی ہیں اور خود کو عوامی مفادات اور عوام کی بھلائی کا محافظ پیش کرتی ہیں لیکن ساٹھ کے عشرے کے عوام اور آج کے عوام میں ارض و سما کا فرق ہے۔اہل ملک کو اچھی طرح علم ہے کہ سیاسی پارٹیاں صرف اور صرف اپنے آور اپنی رفیقوں کی مفادات کی نگہبان ہوتی ہیں اس میں عام لوگوں کی بھلائی کے لیئے کوئی منصوبہ ہی نہیں ان کا منزل عوامی خدمت نہیں صرف اقتدار ہوتا ہے یہ عوامی خدمت کے جذبے سے بالکل عاری ہوتی ئاس لیئے اب عوام میں ان کی پزیرائی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ان کے لیئے سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ یہ عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے کبھی اکھٹے نہیں ہوتے یہ صرف اپنے مفادات اور اپنے حواریوں کے فائدے کا سوچتے ہیں۔ ملکی سیاست میں سب سے تکلیف دہ سیاست بلوچستان کی ہے۔

صوبہ میں سیاست صرف نام کا ہے۔ جو بھی کھلاڑی آتا ہے صرف اپنی زاتی کھیل کھیلتا ہے جیتنے کے بعد عوام کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ بلوچستان کے سیاسی پنڈتوں نے جس طرح اپنے عوام کا استحصال کیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ بلوچستان کے عوام کو پسماندہ رکھنے ان کے مشکلات میں اضافہ کرنے انہیں بیماریوں میں دھکیلنے تعلیم سے دور رکھنے میں بلوچستان کے نام نہاد منتریوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ بلوچستان کے شفا خانوں میں بخار کی دوائی دستیاب نہیں، اسکولوں میں ڈیسک نہیں، بچوں کو کلاس رومز کی قلت کا سامنا ہے، اسکولوں میں پینے کا پانی گوہر نایاب کی طرح نایاب ہے۔

اسکولوں میں اساتذہ کی قلت ہے۔ ان سب کا ذمہ دار کون ہے، اہل بلوچستان کے دکھوں کا مداوا کون کرے۔بلوچستان میں شائد ڈاکٹر مالک بلوچ کی واحد حکومت تھی جس نے دل کھول کر صوبہ کی خدمت کی۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے کئی کام کیئے جو بلوچستان کے عوام اور ملکی تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔ ڈاکٹر مالک نے پبلک سروس کمیشن کو مکمل بااختیار بنایا، پولیس اور محکمہ تعلیم کو این ٹی ایس کے حوالے کیا حالانکہ ڈاکٹر مالک کی پارٹی اس پر راضی نہیں تھی لیکن ڈاکٹر صاحب اس پر ڈٹ گئے اور یہ تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ مالک بلوچ کے جو دوسرے کارنامے ہیں جو ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے جو جامعات ہیں۔ مالک بلوچ نے اپنے حلقہ میں صرف ڈھائی سال میں تربت یونیورسٹی، مکران میڈیکل کالج، ایلمنٹری کالج جیسے عوامی تحائف مکمل کرکے عوام کے حوالے کیئے۔

لیکن دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں ڈاکٹر مالک کی پارٹی ہارا نہیں بلکہ شکست کی وجہ غلط حکمت عملی تھی۔ باقی پارٹیوں کی طرح نیشنل پارٹی میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کسی بھی صورت میں انقلابی گھوڈے کی باگیں کسی دوسرے کو دینے کو قطعاً تیار نہیں ان کا خیال نہیں بلکہ ذاتی خواہش ہے کہ گھوڑا ہارے یا جیتے رقاب میں نعلین ہماری ہی ہو انہیں اقتدار کی رعنائیوں میں اتنی لذت محسوس ہوتی ہے جیسے کسی بادہ خوار کو میخانے میں لیکن نیشنل پارٹی میں اکثریت نہ صرف سیاسی شعور سے وابستہ افراد کی ہے بلکہ وہ سیاسی نشیب و فراز سے بھی خوب واقف ہیں۔

دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے عین دوران پارٹی کارکنوں اور قیادت نے محسوس کیا کہ ان کی پارٹی کا پاؤں بھاری ہے اور عنقریب ایک ناتواں بچے کی پیدائش متوقع ہے اور ایسا ہی ہوا۔ جب بچے کی پیدائش ہوئی ان کا ڈی این اے کرایا گیا تو عجیب بات سامنے آئی اس نوزائیدہ بچے کا خون اپنی ہی پارٹی کے سیانوں سے جاملی کی جو باعث حیرت ہر گز نہیں باعث عبرت ضرور تھی۔ نیشنل پارٹی میں ایک مضبوط رائے یہ ہے کہ ووٹ تو پارٹی کے نام پر پڑتے ہیں تو اس میں اس ورکر کو سامنے لایا جائے جو قابلیت اور صلاحیت کا حامل ہونا کہ فیصلہ شخصی اور وراثتی بنیاد پر ہو۔

اب کی بار سیاسی ورکر یہ فیصلہ کریں کہ ڈاکٹر مالک ہی امیدوار کے بطور الیکشن لڑیں گے۔اس بار بھی اگر بھنور نے پھولوں کو چوسنے کی مردہ خواہش کی تو اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ اس بار کے الیکشن میں پارٹی میں انقلابی گھوڈے پر شہسوار ہی بٹھائے جائیں گے کیونکہ انقلابیوں کو ہلکی ایڑھی لگانے کا ہنر خوب آتا ہے اور جب گھوڑے کو ہلکی ایڑھی پڑتی ہے تو وہ ہواؤں میں اڑنے لگتا ہے۔