|

وقتِ اشاعت :   December 9 – 2020

دستیاب تاریخ میں بلوچستان کا جغرافیہ ہمیشہ مدوجزر کی زد میں رہا ہے لیکن پچھلے ستر برسوں میں یہ سرزمین تاریکی کے آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ یہ کارنامہ بھی انہی لوگوں نے انجام دئیے ہیں جو ہمیشہ خوشحال بلوچستان کے گن گاتے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لوگ جو دائمی طورپر بلوچ کی زندگی کو بدلنے کی راگ الاپتے رہے ہیں ماسوائے اپنے اور اپنی اولادوں کے جائیدادوں میں بے پناہ اضافے کے اور کچھ نہ کیا۔ بلوچستان میں کئی سیاسی پارٹیاں ہیں جو ہمیشہ وفاقی حکومت کے تابع رہی ہیں۔ وفاق میں جس کی حکومت آتی ہے۔

بلوچستان کی نام نہاد سیاسی پارٹیاں اچھل کر ان کی گود میںجا گر تی ہیں۔ ایسا بھی ہوتا آیا ہے کہ عام چنائو کا اعلان ہوتے ہی نو آموز پارٹیاں جنم لیتی ہیں اور پرانے کھلاڑی بھی ان کی صفوں میں شامل ہوکر اقتدارمیں اپنا حصہ لیتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی ہیں کہ صوبے میں تین تین مرتبہ یعنی تین نشستوں سے وزارت اعلیٰ کے مزے لوٹتے رہے لیکن کیا مجال کہ اپنے حلقہ یا اپنے گوٹھ میں کوئی پرائمری اسکول ہی بنا کر کے عوام کے حوالے کیا ہو۔ ان کو بلوچستان کے عوام سے کوئی سروکار نہیں۔ صوبے میں تعلیمی پسماندگی، صحت کی سہولیات اور دور جدید کی دیگر سہولیات کی عدم فراہمی گویا بلوچستان کے لیڈروں کی کلیدی پالیسی ہے۔

بلوچستان کے لیڈروں کی شدید خواہش ہے کہ عوام کو تعلیم سے دور رکھا جائے حالانکہ اگر یہ چاہتے تو بہت کچھ کرسکتے تھے۔ وہ کونسا عہدہ ہے جو ان کے حصے میں نہیں آیا۔ صوبے کی گورنری، وزارت اعلیٰ، یہاں تک کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ بھی بلوچ صاحب کے حصہ میں آیا لیکن یہ ایسا کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکے جو تاریخ میں جگہ پا سکے۔ بلوچستان میں صرف ڈاکٹر مالک بلوچ واحد رہنما ہیں جو ڈھائی برس وزارت اعلیٰ کے منصب رہے۔

اور اپنے کاموں سے اپنا نام رقم کر گئے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے قلیل مدت میں طویل المدتی کارنامے انجام دے کر اہل بلوچستان کو خوبصورت مستقبل دیا۔یہ مالک بلوچ ہی تھے جنہوں نے بلاامتیاز بلوچستان کے کونے کونے میں تعلیم اور صحت کی بے مثال خدمت کی۔ ضلع کیچ میں تربت یونیورسٹی اور جدید شاہراہیں مالک بلوچ کی قوم دوستی کی زندہ مثالیں ہیں جو تاریخ میں رقم ہوں گی۔