|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2019

افغانستان کے عام انتخابات کے ابتدائی نتائج سامنے آگئے ہیں جن کے مطابق اشرف غنی نے 50.64 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کر لی ہے، ان کے مخالف امیدوار عبداللہ عبداللہ نے 39.52 فیصد ووٹ حاصل کیے۔اشرف غنی کی دوسری بار انتخابی کامیابی کو عبداللہ عبداللہ نے دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے رد کر دیا اور کہا کہ وہ ان فراڈ انتخابات کو اس وقت تک تسلیم نہیں کریں گے جب تک ان کے جائز مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔

افغان میڈیا کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ 3 لاکھ ووٹوں کے متعلق شکوک رکھتے ہیں، انتخابی نتائج کا حتمی اعلان ہونے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ پانچ برس قبل افغانستان میں ہونے والے انتخابات کے بعد بھی دونوں امیدوار ایک طویل نوعیت کی زبانی اور قانونی لڑائی میں جڑ گئے تھے جس کے باعث ملک میں کئی ماہ تک سیاسی بے یقینی طاری رہی۔اقوام متحدہ نے ابتدائی نتائج کو خوش آمدید کہتے ہوئے الیکشن کمیشن کو شکایات کا شفاف اور مکمل جائزہ لینے کا کہا ہے۔واضح رہے کہ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے چند روز بعد ہی اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے اپنی فتح کا اعلان کیا تھا لیکن دونوں نے اپنے دعوے کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیے۔

ابتدائی نتائج اکتوبر میں متوقع تھے لیکن تکنیکی مسائل اور فراڈ کے الزامات کے باعث ان میں تاخیر ہوتی رہی۔2001 کے ان انتخابات میں سب سے کم ووٹر ٹرن آؤٹ رہا، صرف اٹھارہ لاکھ بیس ہزار ووٹ درست قرار پائے جبکہ تقریباً دس لاکھ ووٹ بے ضابطگیوں کے باعث مسترد کر دیے گئے۔افغانستان کی آبادی 3 کروڑ ستر لاکھ ہے جس میں سے 96 لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔کم ووٹ کاسٹ ہونے کی بڑی وجہ طالبان تھے جنہوں نے پولنگ اسٹیشنز اور جلسے جلوسوں پر حملوں کی دھمکی دی تھی، جس کے بعد افغانستان میں انتخابات کے دوران نہ صرف حملے ہوئے بلکہ ایک خوف کی فضا بھی طاری رہی۔

افغانستان میں شفاف انتخابات کے باوجود امن کے حوالے سے مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے حالانکہ عالمی طاقتیں کئی برسوں سے افغانستان میں موجود ہیں اور سیکیورٹی کے تمام معاملات انہی کے ہاتھوں میں ہیں جبکہ امریکہ مکمل طور پر آپریٹنگ کررہا ہے لیکن پھر بھی افغانستان میں امن کی صورتحال میں نہ تو بہتری آرہی ہے اور نہ ہی استحکام کے آثاردکھائی دے رہے ہیں البتہ افغان امن عمل کے حوالے سے متعدد بار مذاکرات ہوچکے ہیں جبکہ کوششیں ابھی بھی جاری ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس خطے میں تھانیداری کی جنگ نے افغانستان کو ایک گھمسان کی لڑائی دھکیل دیا ہے مگر نتائج اس کے کچھ بھی برآمدنہیں ہورہے۔

افغانستان میں دیرپا امن اسی وقت ممکن ہے جب وہاں افغان عوام کی خواہشات کے مطابق حکومت قائم ہوکیونکہ انتخابات اور حکومت کی تشکیل میں امریکہ اور عالمی برادری کا براہ راست مداخلت موجود ہے وہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو ان کی پالیسیوں کو نہ صرف آگے بڑھائے بلکہ انہی کے مطابق داخلی اور خارجی پالیسیاں مرتب کریں جوکسی بھی ملک کیلئے نیک شگون نہیں لہٰذا پہلے بھی یہی گزارش کی گئی ہے کہ افغانستان میں عالمی طاقتیں اپنی مداخلت ختم کریں اور ایک آزاد حکومت کی تشکیل کیلئے کردار ادا کریں تاکہ افغان عوام اپنے مستقبل کا بہترین فیصلہ خود کریں وگرنہ مزید دہائیاں بیت جائینگی لیکن افغانستان میں امن قائم نہیں ہوگا۔حالیہ صدارتی انتخابات ہوں یا اس سے قبل کی حکومتیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ضروری ہے کہ افغانستان کامسئلہ حل کرتے ہوئے شفاف انتخابات اور مداخلت کو ختم کرکے افغانستان میں بہتری لانے پر غور کیاجائے۔