وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ 2020 پاکستان کی ترقی کا سال ہو گا، نظام میں ملازمتیں پیدا کی جائیں گی اور غربت کے خاتمے کے لیے احساس پروگرام کو منظم انداز میں چلایا جائے گا۔وزیر اعظم عمران خان نے ترسیلات زر بھجوانے کی اسکیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے لیے اسکیم لا رہے ہیں کیونکہ انہی کے پیسوں سے یہ ملک چل رہا ہے، یہ افراد انتہائی سخت مشکل حالات میں کام کرتے ہیں، ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ سمندر پار پاکستانی ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں اور ان کو فائدہ دینے کے لیے اسکیم تیار کر رہے ہیں۔ ملک میں صرف وہ نظام کامیاب ہوتا ہے جس میں میرٹ ہو اور جمہوریت میں لوگ میرٹ پر ہی اوپر آتے ہیں اس لیے جمہوریت بادشاہت سے بہتر ہے لیکن ہم بھی جمہوریت سے بادشاہت کی طرف چلے گئے تھے۔وزیر اعظم نے ایک بار پھر چین کی معاشی پالیسیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چین نے زبردست میرٹ کا نظام قائم کیا ہوا ہے اور اسی بنیاد پر لوگوں کو ترقیاں دی جاتی ہیں۔
پاکستان میں بھی اداروں کو میرٹ کی بنیاد پر بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ میرٹ پر لوگوں کو بھرتی کیا جائے اور ترقیاں دی جائیں۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پنجاب کے نئے آئی جی کو ہدایت دی ہے کہ تھانے میں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ہم اپنی خدمت کے لیے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے لیے آئے ہیں اور یہی جمہوریت کی شان ہے۔ نیا پاکستان نئی سوچ کا نام ہے اور ریاست مدینہ بھی پہلے روز ہی نہیں بن گئی تھی بلکہ سوچ کو تبدیل کیا گیا تھا۔وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر نئے پاکستان کے عزم کااظہار کرتے ہوئے میرٹ کو یقینی بنانے کی بات کی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں ہمیشہ میرٹ کو پامال کیا گیا اور یہ نچلی سطح پر نہیں بلکہ سیاستدانوں نے ہی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ہر ادارے کے اندر من پسند افراد اور خاص کرسیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کیں جس کا نتیجہ یہی نکلا کہ جب سیاسی انتقام کی ضرورت پڑی تو اداروں کو سیاسی جنگ میں دھکیل دیا گیا اوراس طرح قومی اداروں سے لوگوں کا اعتبار اٹھتا گیا جس کا اظہار خود موجودہ حکمران جماعت ماضی میں کرتے آئے ہیں البتہ یہ اتنا جلد ٹھیک نہیں ہوسکتا مگر نیک نیتی کے ساتھ اگر کسی بھی کام کو شروع کیاجائے گا یقینا اس کے بہتر نتائج آئینگے جس میں ذاتی وگروہی مفادات کو مکمل بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفادات کے پیش نظر فیصلے کرنے ہونگے۔
اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جس طرح ایوان میں کھڑے ہوکر خود اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ ماضی میں ہم نے سیاسی بنیادوں پر ایسے کچھ فیصلے کئے جس کی سزا ہم آج بھگت رہے ہیں اور یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اپوزیشن پر کس طرح کابر ا وقت آن پہنچا ہے اور دواہم اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ماضی میں ہونے والے اختلافات کی وجہ سے اداروں کو بھرپور طریقے سے اپنے مفادات کیلئے استعمال میں لایا گیا مگراب اس کلچر کو یہیں دفن کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ حکمرانی چند سالوں کی ہوتی ہے مگر اچھے کاموں کو یاد رکھا جاتا ہے۔ دوسری اہم بات ملک میں معاشی تبدیلی اور بہتری کی ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ ملکی وسائل پر زیادہ توجہ دی جائے جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے معاشی بحران سے نکلاجاسکتا ہے۔پاکستان میں گیس، تیل، سونا، تانبہ سمیت قیمتی معدنیات موجود ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ بہتر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنے وسائل کا ضیاع کررہے ہیں جس پر خصوصی توجہ سمیت بہترین پالیسی کی ضرورت ہے کیونکہ آج بھی بلوچستان میں اہم منافع بخش پروجیکٹس کے ذریعے کمپنیاں منافع کمارہی ہیں جبکہ صوبہ اور قومی خزانہ کو خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا۔اس لئے ضروری ہے کہ کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کے دوران اپنی ترجیحات کو اہمیت دیتے ہوئے ازسرنومعاہدوں پر نظر ثانی کی جائے جبکہ بہترین اور ایماندار آفیسران کو ان کمپنیوں کی ذمہ داریاں سونپی جائیں تو یقینا صوبہ اور ملک کی خدمت سمیت مالی فوائد کے اہداف بھی حاصل کئے جاسکتے ہیں مگر پرانی پالیسیوں کے ذریعے نیا پاکستان نہیں بن سکتا جس پر غور کرنا موجودہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے۔