|

وقتِ اشاعت :   December 27 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں گوادر میں ماہی گیروں،اور دیگر مسائل کے حل اوربلوچستان کے تاجروں کی گاڑیوں کو بلا وجہ دیگر صوبوں کے کسٹم پوائنٹس پر روکے جانے سے متعلق قرارداد یں منظور کرلی گئیں۔

اجلاس میں سریاب بیوٹی فکیشن کے حوالے سے قرارداد، کوئٹہ کے سبزل روڈ پرتعمیراتی کام کی وجہ سے متاثرہ افراد کومارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضہ کی ادائیگی سے متعلق تحریک التواء پر بحث اور منظور ؎ نہیں ہوسکی جبکہ سرکاری کارروائی بھی پوری نہیں ہوسکی اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران بیشتر سوالات وزراء اور اراکین کی عدم موجودگی کی بناء پر ملتوی کردیئے گئے۔

اجلاس میں پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے صوبے میں کینسر ہسپتال سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس حکومتی رکن کی مثبت یقین دہانی پر نمٹا دی گئی جمعرات کے روزڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ ٓخیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء اللہ بلوچ، میر حمل کلمتی اور اخترحسین لانگو کی مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے میر حمل کلمتی نے کہا کہ ضلع گوادر جو ملک اور صوبے کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تاحال تعمیرو ترقی کے عمل سے محروم ہے۔

جہاں ماہی گیروں، گوادر پورٹ سے وابستہ ترقیاتی عمل، پانی کی شدید قلت، بجلی عدم فراہمی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری جیسے مسائل درپیش ہیں صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ گوادر میں ماہی گیروں، گوادر پورٹ سے وابستہ ترقیاتی عمل، پانی کی شدید قلت، بجلی کی عدم فراہمی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری جیسے درپیش مسائل کے حل کے لئے فوری طو رپر عملی اقدامات اٹھائے تاکہ گوادر کے عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی اور بے چینی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گوادر کی ترقی سننے میں آرہی ہے لیکن اس ترقی سے گوادر کے عوام کو محروم رکھا گیا ہے انہوں نے کہا کہ ہم ترقی کے مخالف نہیں ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس ترقی میں ہمیں بھی ساتھ لے کر چلاجائے گوادر میں موجود مسائل کا زیادہ تر تعلق وفاق سے ہے ماہی گیروں کو مسائل درپیش ہیں جس پر احتجاج پر مجبور ہیں۔

ایکسپریس وے میں ماہی گیروں کے لئے ایگزٹس نہیں رکھے جارہے گوادر کے مسائل پر میں وزیراعظم اور وفاقی وزیر خسرو بختیار سے بذات خود ملا ہوں جنہوں نے یقین دہانیاں بھی کرائیں لیکن ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ان یقین دہانیوں پر عملدرآمد نہیں ہورہا سمندر کے کنارے رکھے گئے سٹونز سے کشتیاں ٹکرا کر ٹوٹ جاتی ہیں جس سے ماہی گیروں کو مشکلات کا سامنا ہے غیر قانونی ٹرالنگ کا عمل بھی جاری ہے زمین ایکوائر کرکے لوگوں کو انتہائی کم رقم دی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گوادر میں اب بھی دس دس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے واجبات کی عدم ادائیگی پر کیسکو ٹرانسفارمر اتار کر لے جاتی ہے گزشتہ دور حکومت میں تعمیر ہونے والے ڈیمز میں حالیہ بارشوں سے پانی ذخیرہ ہوا ہے لیکن پائپ لائنز چوک ہونے کی وجہ سے پانی نہیں مل رہا انہوں نے کہا کہ ایکسپریس وے اور ایئر پورٹ کی تعمیر گوادر کے لوگوں کی ضرورت نہیں انہیں روزگار فراہم کیا جائے بے روزگاری کے باعث تین تعلیمیافتہ نوجوانوں نے تنگ آکر خودکشی کی ہے گوادر کے مسائل کوگوادر کے عوام کو اعتماد میں لے کر اسلام آباد میں نہیں گوادر میں حل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک احتجاج نہیں کیا جاتا اس وقت مسائل حل نہیں ہوتے تین مہینوں میں گوادر کے مسائل حل نہیں ہوئے تو ہم سڑکوں پر آکر احتجاج کریں گے پھر وزیراعظم آکر سڑک پر ہمارے ساتھ مذاکرات کریں۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ ہم 2013ء سے اس ایوان میں گوادر اور گوادر پورٹ کے حوالے سے احتجاج کرتے آرہے ہیں۔

جب یہاں پر جام محمد یوسف وزیراعلیٰ تھے تب وفاق کی جانب سے مشاہد حسین سید کی قیادت میں ایک کمیٹی بنائی گئی جسے چار جماعتی بلوچ اتحاد کی جانب سے ہم نے گوادر اورگوادر پورٹ کے حوالے سے ایک ڈرافٹ دیا تھا اگر اس پر سنجیدگی سے غور کیا جاتاتو آج کئی ایک مسائل حل ہوچکے ہوتے مگر بدقسمتی سے اس دورمیں بلوچستان کو انسرجنسی کی طرف دھکیل دیاگیا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں گوادر کی مقامی آبادی کو وہاں سے منتقل کرنے کا منصوبہ تھا جو شدید احتجاج پر ختم کردیاگیا مگر اب گوادر کے لوگوں کو اتنا تنگ کیا جارہا ہے کہ وہ خود نقل مکانی کرجائیں وہاں کے عوام کا روزگارماہی گیری سے وابستہ ہے مگرماہی گیروں کو کوئی سہولت دستیاب نہیں سی پیک کے اربوں ڈالرزکے منصوبے میں بلوچستان میں ایک ارب ڈالربھی خرچ نہیں ہوا جس سے واضح ہوتا ہے کہ سی پیک ہمارے لئے نہیں۔

آج جن سڑکوں کو سی پیک کے تحت بنانے کی باتیں کی جارہی ہیں وہ دراصل 2005ء اور2006ء کے منصوبے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ صوبائی حکومت وفاق کے ساتھ بیٹھ کر ان مسائل کو حل کرے۔ وزیراعلیٰ کی یقین دہانی کے مطابق ایکسپریس وے سے ماہی گیروں کو تین راستے دیئے جائیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ گوادر کے مسائل پر مشترکہ کمیٹی بنا کر پیشرفت کی جائے اس سے پہلے کہ گوادر کے عوام سڑکوں پر نکل آئیں ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں۔

جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی یونس عزیز زہری نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں گوادر سے منتخب رکن اسمبلی مسائل حل نہ ہونے پر یہاں احتجاج کرچکے ہیں ہمیں وفاقی حکومت کے وعدوں پر اعتماد نہیں وعدوں کے باوجود اب تک کوئٹہ کراچی روڈ کو دو رویہ کرنے پر کام شروع نہیں ہوا گوادر میں عوام کو بنیادی سہولیات سے بھی محروم کیا جارہا ہے ایسے میں حکومت کی خاموشی افسوسناک ہے گوادر کے عوام کو صرف اس لئے تنگ کیا جارہا ہے کہ وہ خود نقل مکانی کرکے چلے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم گوادر کے عوام اور ماہی گیروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ گوادر نہ صرف بلوچستان، ملک بلکہ پورے خطے کے لئے اہمیت رکھتا ہے ہمارے لئے گوادر کے عوام سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں وہاں کے ماہی گیر ہی گوادر کی خوبصورتی ہیں گوادر کی خوبصورتی وہاں کے لوگوں اور ماہی گیروں سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب سے گوادر پورٹ بنا ہے تب سے دنیا کی بہت سی قوتوں جن کا کاروبار سمندر سے وابستہ ہے ان کی نظریں گوادر پر لگی ہوئی ہیں بعض عالمی قوتیں اور ہمارے کچھ ہمسایہ ممالک بھی جن کا کاروبار سمندر سے وابستہ ہے نہیں چاہتے کہ گوادر پورٹ کامیاب ہو ہم جب2008ء میں اس اسمبلی میں آئے تب سے ہمارا گوادر کے حوالے سے ایک سٹینڈ رہا ہے کہ وفاقی حکومت گوادر کے معاملات میں براہ راست مداخلت نہ کرے بلکہ وہاں کے عوام اور صوبائی حکومت کو بھی اعتماد میں لے گوادر سے متعلق جو بھی قانون سازی ہو اس میں بلوچستان حکومت اور گوادر سے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو اعتماد میں لیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جو بات اپوزیشن میں رہ کرتے تھے حکومت میں بھی وہی بات کریں گے یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ گوادر کے عوام کے حقوق کا تحفظ کریں گوادر کے حوالے سے اپوزیشن کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ قرار داد منظور کرکے اس پر پیشرفت کو یقینی بنایا جائے۔صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے کہا کہ گوادر کی وجہ سے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کی خطے میں اہمیت بڑھ گئی ہے گوادر کے حوالے سے اپوزیشن کے دوستوں کی قرار داد کی کوئی مخالفت نہیں کرسکتا۔ گوادر اس وقت صوبے کا واحد شہر ہے جس کا ماسٹر پلان تیار کرلیا گیا ہے جبکہ کوئٹہ سمیت دیگرشہروں کے ماسٹرپلان تیاری کے مراحل میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2001ء میں جب چینی حکام نے گوادر پورٹ بنایا تب سے خدشات اور تحفظات کااظہار کیا جارہا ہے بلوچستان حکومت کے لئے گوادر سمیت پورا صوبہ اہمیت کا حامل ہے گوادر میں وفاقی حکومت کے تعاون سے25ارب روپے کی لاگت سے منصوبوں پر عملدرآمد کیا جارہا ہے سی پیک کے تحت بھی کام ہورہے ہیں صوبائی حکومت ایک ارب روپے سے زائد رقم گوادر کی پرانی آبادی کی ترقی اور بہتری کے لئے جاری کرچکی ہے۔

سی پیک کے تحت بھی منصوبوں پر عمل ہورہا ہے 14ارب روپے کی لاگت سے ایکسپریس وے کا منصوبہ ہے ماہی گیروں کے تحفظات پر وزیراعلیٰ نے خود وہاں کا دورہ کیا ماہی گیروں کے لئے راستے بنارہے ہیں پانی کی قلت دور کرنے کے لئے اربوں روپے کی لاگت سے منصوبے بنائے جارہے ہیں ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے ٹیکنیکل سینٹر اور5ارب روپے کی لاگت سے گوادر ہسپتال کو جدید ہسپتال میں تبدیل کررہے ہیں۔

گوادر میں آبادی کے توازن کو بگڑنے سے بچانے کے لئے چینی کمپنی کے تعاون سے40کروڑ روپے کی لاگت سے پلان بنالیا گیا ہے گوادر کی ترقی سب سے پہلے وہاں کے عوام پھر بلوچستان اور پھر ملک کے لئے ہوگی۔ انہوں نے گوادر سے متعلق قانون سازی کے حوالے سے اپوزیشن کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ وہ آئیں اور اس سلسلے میں جوپیشرفت چاہتے ہیں وہ مشاورت سے کریں گے۔

قرار داد کے محرک حمل کلمتی نے کہا کہ گوادر پورٹ کا معاہدہ بھی ابھی تک ایوان کو فراہم نہیں کیا گیا سنا ہے کہ گوادر پورٹ میں 9فیصد آمدن کا حصہ وفاق کوملے گا جس میں سے3فیصد بلوچستان کا ہوگا جبکہ اسی طرح گوادر فری زون میں 15فیصد وفاق کو ملے گا اور اس میں سے بھی بلوچستان کو تین فیصد ملے گا اصولاً پورٹ صوبوں کا معاملہ ہے اس حوالے سے ہونے والے معاہدات کو ایوان میں پیش ہونا چاہئے،انہوں نے کہا کہ قلات میں بھی گیس کے ذخائر دریافت ہوئے اس کا معاہدہ بھی وفاق نے کیا ہے صوبائی حکومت صوبے کے حقوق کی آواز اٹھائے ہم حکومت کا ساتھ دیں گے۔ بعدازاں قرار داد کو متفقہ طو رپر منظور کرلیا گیا۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امپورٹ اور ایکسپورٹ سے تعلق رکھنے والے تاجر حضرات چمن، کوئٹہ تفتان و دیگر پوائنٹس پر کسٹم کلکٹریٹ کو باقاعدہ ٹیکس جمع کرانے کے بعد گڈز ڈکلریشن فارم اور بل آف منی حاصل کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود دیگر صوبوں کے کسٹم کلیئرنس پر ان کاسامان بلا جواز روک کر کسٹم اور پولیس افسران کی جانب سے انہیں تنگ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان تاجر حضرات میں نہ صرف مایوسی اور بے چینی پائی جاتی ہے بلکہ اس سے صوبے کی تجارت بھی متاثر ہورہی ہے۔

لہٰذا صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ دیگر صوبوں کے متعلقہ حکام کو پابند کرے کہ وہ صوبے کے امپورٹ اور ایکسپورٹ سے وابستہ تاجر حضرات کے مال بردار گاڑیوں کو بلا وجہ دیگر صوبوں کے کسٹم پوائنٹس پر نہ رکونے کو یقینی بنائے تاکہ تاجر حضرات میں پائی جانے والی مایوسی اور بے چینی کا خاتمہ ہو اور قانونی تجارت کو فروغ دیا جاسکے۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ صوبے میں زراعت اور لائیوسٹاک تباہ ہوگئے ہیں صوبے کے لوگوں کا روزگار بارڈر ٹریڈ سے منسلک ہے جس پر بھی خاردار تاریں لگا کر پابندی عائد کردی گئی صوبے کے تاجر ایران اور افغانستان کے راستے تجارت کرنے پر کسٹم کو 30ارب روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن جیسے ہی بلوچستان کی حدود سے تاجروں کے مال بردار ٹرالر نکلتے ہیں انہیں مختلف چیک پوسٹوں پر کئی کئی دن روک لیا جاتا ہے۔

کسٹم کے جی ڈی فارم کو دیگر صوبوں میں نہیں مانا جاتا جس کی وجہ سے کاروبار بری طرح ماثر ہورہا ہے ہمارے تاجر پریشان ہیں اگر تاجروں کی بات نہ سنی گئی تو وہ مزید مایوس ہوں گے اور غیر قانونی تجارت کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے برعکس دیگر صوبوں سے بلوچستان میں آنے والے مال بردارٹرکوں کو کہیں پر بھی نہیں روکا جاتا۔

بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ تاجروں نے کئی مرتبہ احتجاج کیا گزشتہ دنوں بھی ایئر پورٹ روڈ پر تاجروں کا احتجاج تھا بلوچستان سے ایران جانے والے ٹرالرز کو صرف میر جاوا تک جانے کی اجازت ہے لیکن ایران سے آنے والے ٹرالر پورے ملک میں جاسکتے ہیں اس سے صوبے کے ٹرانسپورٹرز کی حق تلفی ہورہی ہے جبکہ بعض اوقات ایران کے مال بردار ٹرالروں کو افغانستان کے نام پر کلیئر کرکے آدھا ٹیکس لیا جاتا ہے ہم قرار داد کی مکمل حمایت کرتے ہیں بلوچستان کے تاجروں کے ساتھ ملک کے اندر اور ایران میں کی جانے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا جانا چاہئے۔

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس قرار داد کو پورے ایوان کی جانب سے منظور کیا جانا چاہئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے تاجروں کی دیگر صوبوں میں کھال ادھیڑ دی جاتی ہے جبکہ غیر قانونی تجارت کرنے والوں کا سامان بے دھڑک منزل پر پہنچ جاتا ہے تاجر برادری نے چیف آف آرمی سٹاف کو بھی اپنے مسائل گوش گزار کرائے تھے بلوچستان کے تاجروں کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے اگر غیر قانونی تجارت بند کردی جائے تو 30ارب روپے کا ریونیو 300ارب تک پہنچ جائے گا۔

صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہمیشہ تاجروں کے حقوق کی بات کی۔ کسٹم کی طرف سے زیادتیاں ہورہی ہیں چیف کلیکٹر اور کلیکٹرکسٹمز کو ایوان میں بلا کر ان سے معاملے پر بریفنگ لی جائے انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں نے گوادر کے لئے کیا کیا؟مفادات کی خاطر گوادر کی سابقہ سیٹلمنٹ منسوخ کرکے نئی سیٹلمنٹ کی گئی ہم نے ڈیڑھ سال میں لائیوسٹاک ایکسپو کروائی زراعت میں 7ارب روپے کا منصوبہ شروع ہونے جارہا ہے۔

پچھلی حکومتوں نے زراعت اورلائیوسٹاک کو تباہ حالی پر پہنچادیا اور سی پیک کو بیچا ورلڈبینک کی سڑک کو سی پیک کے نام پر شروع کیا گیا ہم غلط بیانی کرنے کی بجائے حقائق پر بات کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک چیف کلیکٹر اور کلیکٹر کو ایوان میں بلا کر ان سے وضاحت نہیں لی جاتی اس وقت تک تاجروں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ ڑوب میں عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین بھی موجود تھے اگر سی پیک بیچا گیا ہے تو ان کی جماعت بھی اس میں شامل تھی میں نے کسی پر الزام نہیں لگایا تھا صرف یہ کہا تھا کہ خشک سالی اور قحط سالی کی وجہ سے زراعت اور لائیوسٹاک تباہ ہوئے۔انجینئرزمرک خان اچکزئی نے کہا کہ ہم خوش تھے کہ سی پیک منصوبہ شروع ہورہا ہے لیکن بعد میں پتہ لگا کہ وہ ورلڈ بینک کا منصوبہ ہے ہم نے غلط بیانی کی گئی تھی۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے دنیش کمار نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ تاجروں کو کسٹم سے شکایات ہیں جدید دور کا تقاضہ ہے کہ تاجروں کی جانب سے 16مختلف اقسام کے دیئے جانے والے ٹیکس کی دستاویزات کوتمام چیک پوسٹوں پر آن لائن سسٹم سے منسلک کردیا جائے۔

بی این پی کے رکن حمل کلمتی نے کہا کہ گپت سے ایرانی اشیاء درآمد کرنے والے تاجروں کو بلوچستان کی چیک پوسٹوں پر باقاعدہ بھتہ دینا پڑتا ہے جسے روکا جائے جبکہ بڑی کمپنیوں کے ہیڈ آفسز بلوچستان سے باہر ہیں جس کی وجہ سے تمام سرمایہ دیگر صوبوں میں جاتا ہے کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ بلوچستان میں ہی اپنے ہیڈ آفسز بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ بینکوں میں ایکسپورٹ فارم کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ کسٹم حکام کو ایوان میں طلب کرکے مسئلے کا حل نکالا جائے صوبائی کسٹم حکام کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر انہوں نے مال کو کلیئر کیاہے تو وہ تمام محکموں کو اس حوالے سے آگاہ کریں تاکہ تاجروں کو مشکلات درپیش نہ ہوں گے بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی۔

اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران متعلقہ وزیر کی عدم موجودگی پر محکمہ پی ایچ ای سے متعلق سوالات اگلے اجلاس تک موخر کئے گئے جبکہ اپوزیشن رکن کے محکمہ ثانوی تعلیم سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں مشیر تعلیم محمدخان لہڑی نے کہا کہ جلد واشک کے تعلیمی اداروں کا دورہ کرکے وہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔چیئرمین پی اے سی اختر حسین لانگو اور ملک نصیر شاہوانی نے مشیر تعلیم کی توجہ اپنے حلقوں میں موجود شیلٹر لیس سکولوں اور سکولوں میں بنیادی سہولیات کی جانب مبذول کرائی۔

جس پر مشیر تعلیم محمدخان لہڑی نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں اصلاحات لانے کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے بھی اقدامات کا سلسلہ جاری ہے، انہوں نے کہا کہ اراکین اسمبلی شیلٹرلیس سکولوں کے لئے اراضی تجویز کرے صوبائی حکومت ان اراضیات پر عمارتوں کی تعمیر کو یقینی بنائے گی۔ اجلاس میں فوڈ اتھارٹی سے متعلق نصراللہ زیرئے کے پوچھے گئے۔

سوال کے جواب میں وزیر خوراک سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ لوگوں خو معیاری اشیائے خوردونوش کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے صوبے میں فوڈ لیبارٹری کے قیام سمیت فوڈ اتھارٹی کو صوبے بھر میں وسعت دینے کے لئے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے جس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوں گے، انہوں نے کہا کہ فوڈ اتھارٹی میں عملے کی تعیناتی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔

اجلاس میں پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے صوبے میں کینسر ہسپتال سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے وزیر صحت سے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ صوبے میں کینسر ہسپتال کی تعمیر کے لئے پی ایس ڈی پی میں مختص فنڈز کو کسی اور جگہ منتقل کیا جارہا ہے اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو حکومت مذکورہ فنڈز کو کن وجوہات کی بناء پر دوسرے ہسپتال منتقل کررہی ہے۔

اس کی تفصیل فراہم کی جائے جس پرپارلیمانی سیکرٹری دنیش کمار نے ایوان کو بتایا کہ معزز رکن کی تجاویز وزیراعلیٰ تک پہنچادی جائیں گی صوبے میں کینسر ہسپتال کے قیام کے لئے وزیراعظم عمران خان بھی خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں جس پر نصراللہ زیرئے نے کہا کہ کارڈک ہسپتال کے لئے بی ایم سی کے عقب میں 23ایکڑ زمین مختص کی گئی تھی اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے ہسپتال کی تعمیر سے متعلق فنڈز کی فراہمی کا ذمہ لیا تھا اس سلسلے میں اس دوران خط و کتاب کا سلسلہ بھی مکمل ہوگیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 2017-18ء اور 2018-19ء اور مالی سال2019-20ء کے بجٹ میں کینسر ہسپتال کے لئے رقم مختص کی گئی تھی اب تک اس کی تعمیر کا عمل شروع نہیں کیا جاسکا موذی مرض سے متاثرہ لوگ کراچی اور لاہور میں ٹھوکریں کھارہے ہیں لہٰذا کینسر ہسپتال اور کارڈیک ہسپتال کو شہر کے وسط میں تعمیر کیا جائے۔ بعدازاں حکومت کی مثبت یقین دہانی پر توجہ دلاؤ نوٹس نمٹادیاگیا۔