بلوچستان کے عوام کو امید لگی رہتی ہے کہ شاید ہر نیاسال ان کیلئے کچھ بہتر ہی ثابت ہوگا،ماضی میں ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ہوگا اور حکمران ان کے مسائل حل کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائینگے مگر گزشتہ ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بلوچستان میں کسی ایک شعبہ کی مثال نہیں دی جاسکتی کہ اس میں بہتری آئی ہے جو خواب بلوچستان کے غریب عوام کو دکھائے جاتے ہیں وہ محض دعوے ہی ثابت ہوتے ہیں اور یوں اس طرح دیوانے کے خواب بن کر رہ جاتے ہیں۔ بلوچستان میں جب نئی حکومت کی بنیاد رکھی گئی تو اس کا سلوگن ہی تبدیلی کا تھا اور اس کا اظہار خود حکومتی جماعت کے سینئر اراکین ہر فورم پر کرتے دکھائی دیتے تھے کہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کا نہ صرف ازالہ کیاجائے گا بلکہ مرکز سے ہونے والی مداخلت بھی ختم کردی جائے گی بلکہ یہاں کے منتخب نمائندگان بلوچستان کے وسیع ترمفاد میں عوامی خواہشات کے مطابق خود فیصلے کرینگے۔
کسی اور کو بلوچستان کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے نہیں دیا جائے گا،اب یہ الگ بحث ہے کہ بلوچستان کے حکومتی معاملات میں مرکز کی کتنی مداخلت موجود ہے مگر بلوچستان کے عوام آج بھی صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔2019ء اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے مگر صحت کے مراکز میں صورتحال جوں کاتوں ہے، رواں سال کے دوران حکومت نے صحت میں کن تبدیلیوں کی بات کی تھی ان کا جائزہ ذرا لیاجائے کہ یہ وعدے پورے کئے گئے۔ حکومتی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ صوبے کی قومی شاہراہوں پر میڈیکل ایمرجنسی اینڈ رسپانس سینٹر زکا قیام عمل میں لایا جائے گا، شاہراہوں پر ایمرجنسی سینٹرز قائم کئے جائیں گے، منصوبے پر 3.5 ارب روپے لاگت آئے گی، منصوبے سے مختلف اہم شاہراہوں کے قریب واقع بی ایچ کیوز کو مزید فعال اور ضروری آلات سے لیس کیا جائے گا، ہر سینٹر میں دو ا،یمبولینس اور فائربریگیڈ گاڑی فراہم کی جائے گی، سینٹر کے عملے کو ضروری تربیت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ جدید ضروری آلات بھی فراہم کئے جائیں گے، منصوبہ پی پی ایچ آئی محکمہ صحت کی گائیڈ لائن کے مطابق چلائے گی۔
سینٹرز کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں سے منسلک کیا جائے گا جس سے حادثات کی صورت میں قیمتی جانیں بچائی جاسکیں گی، وزیراعظم نیشنل پروگرام کے تحت 2018-19ء کی پی ایس ڈی پی میں شامل ہیلتھ کارڈ کی فراہمی کو پانچ اضلاع سے بڑھا کر پورے صوبے تک پھیلایا جائے گا، ہیلتھ کارڈ کے اجراء میں میرٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، ہیلتھ کارڈ کی تقسیم کار میں تبدیلی کے حوالے سے وفاق کو پی سی۔ون بھیجا جائے گا،بلوچستان حکومت صوبے سے باہر ایسے ہسپتالوں سے معاہدہ کرے گی جہاں آتشزدگی سے متاثرہ افراد کو بہترین علاج کی فراہمی دستیاب ہو اور اس مدمیں حکومت ہسپتالوں کو فنڈز کے اجراء کو بھی آسان بنائے گی، حکومت کی طرف سے میڈیکل کی مد میں فراہم کئے جانے والے فنڈز کے درست استعمال کو یقینی بنانے کے لئے ذیلی کمیٹی بنانے کابھی فیصلہ کیا گیاجو اس سلسلے میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔
ایسے ہسپتال جن کی گورننگ باڈی ہے ان ہسپتالوں کی گورننگ باڈی کی دوبارہ تشکیل نو کی جائے گی اور ان میں مقامی لوگوں اور ماہرین طب کی نمائندگی بھی یقینی بنائی جائے گی، بلوچستان مینٹل ہیلتھ ایکٹ 2019ء کی بھی اس دور حکومت میں منظوری دی گئی جس کا مقصد ذہنی امراض میں مبتلا افراد اور ذہنی معذوروں پر مناسب توجہ دینا، ان کی جائیداد کی حفاظت اور ان کی ذہنی صحت میں بہتری کے لئے معاشرتی سطح پر توجہ وخیال کو فروغ دینا ہے۔بہرحال ان تمام فیصلوں کے بعد بلوچستان میں صحت کے شعبہ پر نظر دوڑائی جائے کہ واقعی یہ اقدامات حقیقی شکل میں دکھائی دیتی ہیں تو یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔مشکلوں بھرایہ سال گزرگیا مگرپھر بھی غریب عوام نئے سال سے نئی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید نیا سال ماضی کی نسبت بہتر ہو۔